کوئی بھی لڑائی محض طاقت کے زور پر نہیں لڑی جاتی،حکمتِ عملی اور پیش بندی بھی کام آتی ہے ،لوگ تو معافی تلافی میں بھی اتنی تاخیر کر دیتے ہیں کہ کئے گئے فعلِ ناروا پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے ،معافی،معذرت اور غلطی کا اعتراف بھی ملفوف،انسان انا کی شکست سے کتنا گھبراتا ہے ،اسے اپنے قد کاٹھ کی فکر بھی مشکل ہی سے دامن گیر ہوتی ہے ۔جملہ معترضہ۔
سیاست کا اونٹ سنبھل نہیں رہا،اُدھر ریاضت کا فقدان،بات بات پر قول و فعل میں ردّو بدل،ویسے دیکھا جائے تو یہ بھی معیوب نہیں کہ غلطی کا فوری اعتراف ! یہ وصف بھی ہر ایک میں نہیں ہوتا۔جوں جوں حکومت کے سو دن قریب آتے جارہے ہیں ،اپوزیشن اتحاد کی سرگرمیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں ،اس بارے مولانا کو سب سے زیادہ جلدی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہو اور ن لیگ ،پی پی پی اور جے یو آئی پر مشتمل ایک نیا
گٹھ جوڑعمران حکومت کا دھڑن تختہ کرکے عنانِ اقتدار اپنے نام کر لے مگر واقعہ یہ ہے کہ مولاناکی بے چینی جتنی بڑھتی جارہی ہے ،میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری کے درمیان بد اعتمادی اتنی ہی فروتر ہوتی جا رہی ہے ۔حکومت سیاستدانوں کے گرد گھیرا تنگ کرتی جارہی ہے ،آصف علی زرداری جیل جانے کا رخت باندھے بیٹھے ہیں ،میاں نواز شریف بھی مجبوریء حالات کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ،مولانا شاید اس زعم میں ہیں کہ قیدوبند سے بچ رہیں گے کہ مولانا سمیع الحقؒ شہید کے اندھے قتل سے کچھ فائدہ اٹھا لیں گے،اس صورت کہ اگر مدارس کے طلباء سڑکوں پر نکل آئے،جس کا عندیہ دیاجا چکا ہے ۔
مولانا کو خبر ہونی چاہیئے کہ کسی حکومت کو تین ماہ بعد نا کافی کارکردگی کی بنیاد پر ہٹادینا اتنا آسان نہیں ہوتا کہ حکومت کے وجود کو سہارا دینے والی قوتیں اتنی مضمحل اور نا تواں نہیں ہوتیں کہ اپنے اہداف کے پورے ہونے سے پہلے بساط لپیٹ دیں ،یوں بھی مولانا کی تمام تر چالوں کے باوجود شطرنج کا کوئی بھی مہرہ ان کی مرضی کے خانے تک پہنچ نہیں پایا ۔اے پی سی کی نا کامی کی ہزیمت کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ ان کے بھرنے میں کچھ وقت لگے گا ،ابھی تو مولانا اپنی شکست کے غم اور غصے سے نکل نہیں سکے۔
دراصل یہ اقتدار کا پہلا جَل ہے جس میں مولانا کو جائے پناہ نہیں ملی ،ورنہ مشرف حکومت سے لیکر آخری ن لیگ حکومت تک وہ اقتدار کے مزے لینے سے کہیں نہیں چوکے ،یہاں تک کہ عورت یعنی محترمہ بینظیر کی حکومت میں بھی عورت کی
حکمرانی کے شرعی جواز نہ ہونے کے باوجود ان کی حکومت کا اٹوٹ حصہ رہے ،اس سلسلے میں تاحال توبہ کا ایک لفظ بھی اپنی زبانِ اطہر سے ادا نہیں کیا۔بلکہ یار لوگ اسے ان کی روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں ،اسی ترقی پسندی کا شاخسانہ تھا کہ نو شہرہ کے صد سالہ دیو بند کے اجتماع میں خالص اسلامی جماعت نے مسیحی رہنما کو اکابر کی کرسی پر بٹھایااور وہی پروٹوکول دیا جو ایک دینی رہنما کو دیا جاتا رہا۔
سیاسی اجتماع میں ایسے کسی اقدام پر اعتراض کی گنجائش نہیں ،مگر ایک خالص دینی اجتماع میں ایسا کرنا کچھ معیوب سا لگا، اس حوالے سے جو جوازات گھڑے گئے وہ بھی مضحکہ خیز تھے ،اُسی عظیم دینی اجتماع میں یہ دعویٰ داغا گیا تھا کہ پاکستان میں آئیندہ حکومت جمیعت علمائے اسلام پاکستان کی ہوگی ۔
صورتِ حال یہ ہے کہ ساری اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں ،مگر مجال ہے جو عمران خان کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو ،البتہ ان کے مصاحب چومکھی لڑرہے ہیں ،مگر عالم یہ ہے کہ اکثر جو دھَول دوسرے کے سر پر تانے ہوتے ہیں اپنے ہی کاسہء مبارک پر جما دیتے ہیں ،یوں اپنا بنے نہ بنے دوسرے کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔کون نہیں جانتا سارا کا سارا الیکٹرانک میڈیا سر دھڑکی بازی لگا رہا ہے کہ عوام کو یہ یقین ہو جائے کہ پی ٹی آئی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور گھر کے بھیدی یعنی وہ ’’اپنے‘‘ جن سے قریبی رشتہ داریاں ہیں ،وہ بھی ذاتی اختلافات
کو سیاسی رنگ دیکر ’’کزن ‘‘ نیازی کی حکومت کے خوب لتّے لے رہے ہیں ،کل تک وہ جسے خاندان بھر کا نابغہ گردانتے تھے اور قبیلے کی پگ عمران خان کے سر سجانے پر فخرو انبساط محسوس کرتے تھے ،آج وہی اس کے سب سے بڑے ناقد ہیں ، ستم بالائے ستم یہ کہ اسے لائق حکمرانی سمجھنے تک سے صاف انکاری ہیں ،ایسے کہ ان کا بس چلے تو عنانِ اقتدار عمران خان سے چھین کر کسی اور کے حوالے کردیں ،پا ،لیکن ہنوز ’’دلّی دور است‘‘ قرائن بتاتے ہیں کہ سیاست کی بساط پر جما کھیل ابھی بگاڑا نہیں جانے کا ،کہ بہادر اور جری آصف علی زرداری اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں ،انہیں معلوم ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا ‘‘
فیس بک کمینٹ