خان کا ہوٹل اور ” بھنڈی گوشت “ : وا للہ اعلم / اختر شمار
محفل جوبن پر تھی ۔۔ جورا قصائی لطیفہ سنا رہا تھا : ” سنا ہے: میراثیوں کی سب سے بڑی کمزوری کریلے گوشت کی ڈش ہوتی ہے۔ایک میراثی کو کسی زمیندار کے ہاں ملازمت ملی تو اس نے اپنی پہلی تنخواہ کی ساری رقم اپنی پسندیدہ ڈش پر خرچ کرنے کا خواب پورا کیا ۔ اس نے کریلے گوشت کی ڈش دیسی گھی میں خود تیار کی پھر بازار سے خمیری روٹیاں لایا۔دستر خوان پر کڑاہی اور روٹیاں رکھتے ہوئے اس نے سوچا کیوں نہ کھانے کے بعد گولڈ لیو کا ایک سگریٹ بھی ہو جائے ۔ لاتا ہوں۔۔پسندیدہ ڈش کے بعد سگریٹ پینے کا اپنا لطف ہے ۔وہ جھٹ قریبی دکان سے سگریٹ لینے نکل گیا۔سگریٹ ہاتھ میں تھامے جب وہ کمرے میں آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے کتے نے سب کچھ چٹ کر لیا ہے اور اب بڑے آرام سے ٹانگیں پسارے ”خمار“ میں بیٹھا ہے۔میراثی نے جب اپنی پسندیدہ ڈش اور روٹیوں کا صفایا دیکھا تو جل بھن کر رہ گیا۔کتے کو سامنے بیٹھا دیکھ کر اس سے نہ رہا گیا۔کتے کے قریب بیٹھ کر اسے سگریٹ پیش کرتے ہوئے بولا : لو چودھری صاحب : ”سگریٹ بھی حاضر ہے“۔۔۔
لطیفہ ختم کرتے ہی جورا ”ٹھا ہ ٹھاہ“ کر کے قہقہے لگانے لگا۔اپنے لطیفے پر وہ خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہا تھا ۔ اتنے میں پاس بیٹھے ،شیدے کلچے نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا : نئیں ! اس المناک صورتحال پر اتنے قہقہے لگانے کی کیا تُک ہے ۔ غلطی میراثی کی ہے اسے روٹی دستر خوان پر سجا کر سگریٹ لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔اپنے قہقہے کو سنبھالتے ہوئے جورا بولا : بھائی جی! ” مانتا ہوں کسی کی پسندیدہ ڈش تیار ہوجانے کے بعد کتا چٹ کر جائے تو بڑاالمیہ ہے،مگر مجھے تو میراثی کی کتے کو سگریٹ کی پیش کش پر ہنسی آرہی ہے۔“
ماسٹر صادق نے کہا : یہ جو پسندیدہ ڈشیں ہوتی ہیں یہ بھی نفس کا امتحان ہوتی ہیں۔”کبھی کبھی جو دل چاہتا ہو۔۔ نہیں کرنا چاہیے“۔اس میں بڑی فلاح ہے۔ماسٹر صادق کی پتے کی بات سنتے ہوئے رفیق درزی نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا : ” لوجی ! پسندیدہ ڈش کی خبر تو اخبار میں بھی آگئی ہے۔“
گل دراز جو چپ چاپ بڑی دیر سے ساری گفتگو سن رہا تھا ، نسوار کو منہ سے پھینکتے، پانی سے کلی کرتے ہوئے بولا: ” مجھے تو سب سے بڑا صدمہ مولانا فضل الرحمن کی شکست کا ہے۔آہ بیچارے مولانافضل الرحمن ۔۔۔
جورا بولا : صدمہ کیسا ؟ مولانا پہلی بار کسی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔یہ جو ضمنی انتخابات میں انہیں اسمبلی میں لانے کی باتیں ہیں ،یہ بس باتیں ہی ہیں۔دیکھ لینا ضمنی انتخابات میں بھی مولانا ہار جائیں گے۔گل دراز بولا : یارا ایسے نہ بولو! آخر کو وہ ہمارے عالم دین ہیں۔
رفیق درزی نے کہا : یہ جو اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے خلاف دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں اگر دوبارہ الیکشن ہوئے تو عمران سویپ کرے گا اور اپوزیشن کو موجودہ نشستیں بھی دوبارہ نہیں ملیں گی۔کیونکہ اب عمران کی ہوا چل پڑی ہے۔اگر پانچ برس ہمارے ہیرو نے مکمل کر لیے تو بد عنوان سیاست دانوں کا ہمیشہ کے لیے راستہ بند ہو جائے گا اور اسمبلیوں میں کوئی پرانا چہرہ نظر نہیں آئے گا۔
ماسٹر صادق کی آواز آئی : عزیزو!میں نے کہا ناں ، اب جس کو حکومت ملی ،اسے کارکردگی بھی دکھانے پڑے گی۔اس کے بغیر حلقے میں کوئی امیدوار داخل نہیں ہو سکے گا۔
جورا قصائی بولا : وہ تو ٹھیک ہے مگر عمران اپنے ساتھیوں کے لیے بھی کافی سخت نظر آتا ہے۔۔سنا ہے نیب زدہ کسی شخص کو کابینہ میں جگہ نہیں ملے گی۔
گل دراز بولا : او بھائی جان ! عمران کے ایک اشارے پر بیرون ملک پاکستانیوں نے ڈالروں کی بارش کر دینی ہے۔انشاءاللہ ڈیم بنیں گے،ملک کی حالت بھی بہتر ہو گی۔۔ماسٹر صادق نے کہا : خان صاحب! اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔ویسے دیکھا یہی جا رہا ہے کہ عمران کے ناقدین بھی دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں ۔اب وہ عمران کی حمایت کرنے لگے ہیں۔امید ہے عمران کو کام کرنے دیا جائے گا۔ “
ابھی یہ بات جاری تھی کہ مسجد کے سپیکر سے اذان کی صدا بلند ہوئی ۔اذان سن کر ماسٹر صادق اٹھ کھڑے ہوئے ،پیچھے پیچھے ، جورا اور رفیق بھی نکل گئے۔
عزیزقارئین ! یہ ساری گفتگو خان ہوٹل پرہو رہی تھی۔ جہاں کئی ماہ بعد میرا چکر لگا تھا۔ اس بار یہاں بشیر کتیاں والا اور مون منیاری کو مس کیا گیا۔ خان سے پتہ چلا کہ بشیرے کی کتی مر گئی ہے ابھی اس کے غم سے باہر نہیں آیا ۔ایک کتی کی موت پر اتنا غم ؟ میر ی حیرت پر اس نے بتایا : وہ کتی بڑی قیمتی تھی ۔ خا ن نے اٹھتے ہوئے کہا: ہاں قیمتی ایسی کہ وہ چوروں سے نہیں ملتی تھی ۔۔“
( بشکریہ : روزنامہ نئی بات )
فیس بک کمینٹ