ہم لوگ اکثر کرسٹوفر کارڈویل کا یہ قول دہراتے رہتے ہیں کہ غلام ادب تخلیق نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں غلامی کے ادوار نہیں آئے اور اُس وقت کوئی لکھنے والا غلام نہیں تھا۔اصل بات یہ ہے کہ ہر لکھنے والا لکھتے وقت اُس جہالت کا غلام نہیں ہوتا جو آپ کو کسی پاکیزہ نام پر تشدد پر اکساتی ہے ۔اُس نسل پرستی کا غلام نہیں ہوتا جو آپ کو انسانوں میں اپنے سے کم تر یا ”نیچ “لوگوں پر حکومت کرنے کا بزعم خویش ”حقِ ربانی“ دیتی ہے۔ اسی طرح سے وہ کسی سیاسی جماعت یا تنظیم یا پارٹی یا حاکم کے ہاتھ اپنا ضمیر یا شعور یا قلم گروی نہیں رکھتا۔ گویا درباروں میں غرض مندوں کی قطار میں بیٹھنے والے اور ان درباروںکو جھوٹے خوابوںسے مزین کرنے والے مخدوموں ،سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ پر قابض ہو نے والے وڈیروں یا تاجرو ں سے لفافے لے کر اپنے لفظ بیچنے والے ادیب نہیں ہوسکتے۔ یہی ادیب دراصل ترقی پسند ہیں مگر جب ہم ترقی پسند کہتے ہیں تو خود بخود برصغیر ِ ہندوپاک میں ادیبوں کی ایک طاقتور تنظیم کا خیال آتا ہے ۔ جس کے بارے میں ابھی تک یہ سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا یا پاکستان سے ہدایت نامے وصول کرتے تھے یا بالآخر سوویت یونین کی ہر پالیسی کو آنکھ بند کرکے قبول کرتے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ ترقی پسند مصنفین کے دو بانی ڈاکٹرمحمد دین تاثیر اور پروفیسر احمد علی بہت جلد اس سے الگ یا بے تعلق ہوگئے۔ رہی سہی کسر اس تنظیم نے اس وقت پوری کی جب اپنے سب سے بڑے تخلیق کار سعادت حسن منٹو کو اپنی صفوں سے نکالنے کا اعلان کیااور اپنے جرائد میں غیر ترقی پسند ادیبوں کو نہ چھاپنے کی ہدایت جاری کی۔ قیام ِ پاکستان سے ذرا پہلے تقسیم ہند ، ہجرت ، فسادات ، مہاجرین کی مادی اور تہذیبی آباد کاری ، اُردو اور بنگالی اور دیگر زبانوں کے تضادات یا بولنے والوں کی شناخت کا مسئلہ ، مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ بھارت میں کسی قدر سوشلزم کی طرف مائل وزیر اعظم کے طفیل ابتدا میں اس تحریک کے بہت سے قائدین کی سرکاری اداروں میں پذیرائی کے برعکس پاکستان کے امریکہ کی گود میں بیٹھنے کے باعث یا پنڈی سازش کیس کی ایڈونچرازم کے طفیل ترقی پسند تحریک کی قیادت اور ادیب اُن آزمائشوں کی زد میں آئے جس میں ناصرف روزگار سے محروم ہوئے بلکہ بسااوقات اُنہیں فتووں کا سامنا کرنا پڑا ۔اپنے نیک چال چلن کے لئے ضمانت نامے داخل کرانے پڑے اور پھر رہی سہی کسر ضیاءالحق کے دور میں پوری ہوگئی جب انہیں قتل کرانے یا نذرِ زنداں کرنے اور وطن بدر کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔
پاکستان میں اپریل ۶۸۹۱ءمیں اس تحریک کی گولڈن جوبلی تقریبات نے درحقیقت مزاحمت کے رومان کو ایک طرح سے سرشاری دی۔ وہاں کے شرکاءنے پاکستان بھر سے آئے ہوئے اپنے ساتھی دیکھے جو مختلف علاقوں، ثقافتوںاور زبانوں کے ترجمان تھے، مگر اُن سب کا دل ایک تال پر دھڑکتا تھا کہ مارشل لاءاور اُس کی آر میں مذہبی فاشزم کو مسلط کرنا گوارہ نہیں۔ تاہم ترقی پسندوں کی باہمی آزردگیاں اور رنجشیں بھی سامنے آئیں، مگر حقیقت میں یہ سبطِ حسن ، شوکت صدیقی، راحت سعید ، فخر زمان ، محمد علی صدیقی، کشور ناہید اور کچھ ایسے ہی سینئر تخلیق کاروں کا تدبر یا تنظیمی حوصلہ تھا کہ اس کانفرنس میں پورے ملک میں ایک ایسی کیفیت پیدا کی کہ سچ مُچ لگا کہ اب یہ نظام اپنی ہیبت سمیٹ لے گا۔ اُس کے بعد بہت کچھ ہوا، طاقتوروں کی شرائط پر جمہوریت بحال ہوئی اور بعض مہم جوﺅں کی آرزو پر اس نظام سے لوگوں کو دلبرداشتہ کرنے کا سامان بھی فراہم کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل مشرف کی صورت میں ایک اور فوجی ڈکٹیٹر آکر بیٹھ گیا مگر اُس نے ضیاءالحق کے برعکس تاثر دینا چاہا کہ وہ پاکستان میں کمال اتاترک کا رُوپ ہے، وہ محب وطن ہے، سیکولر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ وہ پاکستانی معاشرے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے کھلے آسمانوں کی وسعتوں سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ کو فروغ ملا ، نئے نئے چینل کھولے گئے ، بہت کچھ دکھائی اور سنائی دینے لگا، مگر ضیاءالحق کی طرح نسلی گروہوں کو شریکِ اقتدار بنایا گیا ، جمہوری ادارے کمزور کردئیے گئے۔ اس لئے ادب کی دنیا کو بہت سے مغالطوں میں مبتلا کیا گیا۔ سو اب پاکستان میں بھی ادبی میلوں کا رواج ہے۔ اخبارات اور چینل پیچھے رہ گئے، سوشل میڈیا کا ہار سنگھار ادیبوں کی دلجوئی کرتا رہتا ہے اور وہ اپنے گھر میں بیٹھے روحِ عصر کے ترجمان ہونے کے گمان میں سرشار ہوتے رہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے زکریا یونیورسٹی سے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے ۹جون ۷۰۰۲ءکو حمید اختر مرحوم کو بلا کر ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس کرائی تھی جس میں کشورناہید، حارث خلیق، سحر انصاری، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر مبارک علی ، راحت سعید اور بہت سے دوستوں نے شرکت کی تھی۔ پھر اس کے بعد بدقسمتی سے ارتقاءکراچی کی مجلسِ ادارت میں فاصلہ پیدا ہوگیا اور مجھ سمیت میرے بہت سے شاگرد بہت عمدہ کتابیں چھاپنے والے ڈاکٹر جعفر احمدکے اسیر ہوگئے اِدھر ڈاکٹر شاہ محمد مری کے قتیل تو ہم پہلے سے تھے۔ ہمارے سرائیکی وسیب میں رفعت عباس جیسا کوئی دوسرا تخلیق کار نہیں۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر سجاد نعیم، ڈاکٹر خاور نوازش، عرفان شمسی، ڈاکٹر شگفتہ حسین، ڈاکٹر رامش فاطمہ، ڈاکٹر عصمت جمیل، پروفیسر منیرہ سید، جہانگیر طورو، محمد عارف،ڈاکٹر راشدہ قاضی،ڈاکٹر لیاقت علی،ڈاکٹر مظہر حسین،ڈاکٹر عامر سہیل،رضی الدین رضی،شاکر حسین شاکر،قمر رضا شہزاد،ریاض راہی اور دیگر دوست، ضروری نہیں کہ کسی ایک رجسٹرڈ تنظیم کے جھنڈے تلے آئیں مگر ہم نے ’پیلوں‘ کی صورت میں اس خطے میں پچھلے چھ سال سے رواداری اور ترقی پسند یا پیش قدم فکر کے لئے جو کام کیا ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر پڑھنے لکھنے اور سوچنے والا تعصب، تشدد اور توہین یا تذلیل کے خلاف آواز بلند کرے، قلم اٹھائے۔ اس معاشرے میں اچھے اور زندہ خیالات کو ترویج دے، ریاکاری کے خلاف مزاحمت کرے ، وہ خود بخود اسی قبیلے کا فرد ہوگا چاہے اُس نے اپنا نام کچھ ہی کیوں نہ رکھ چھوڑا ہو۔
فیس بک کمینٹ