حکومت کیا ہے ۔ آسان لفظوں میں اِس کا جواب کسی مقتدر کی ’’قوتِ نافذہ‘‘ یا معروف معنی میں رِٹ کا نفاذ ہے۔حکومتیں اپنی رِٹ کے نفاذ سے ہی پہچانی جاتی ہیں کہ اُن میں کتنا دم خم ہے یا نہیں ہے۔تاریخ کا بیانیہ ہے کہ جب کہیں حکومتی سطح پر طوائف الملوکی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو اُس کے بعد اُس کے اینٹی کلائمکس میں انتہائی سخت گیر قیادت منصہ شہود پہ آتی ہے اور بگاڑ اپنے آپ ہی سدھرنا شروع ہو جاتا ہے۔مگر اعصاب کا یہ تناؤ اور انتظامی فعالیت زیادہ دیر تک نہیں رہ پاتے اور انہیں آہستہ آہستہ ’’ڈھا‘‘ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے انتظامی مشینری میں ایسے کل پرزے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ جن کا کام حاکمِ وقت کو خوابوں کی دنیا میں رکھنا ہوتا ہے۔گذرے زمانے میں ایسے وزیر ، مشیر اور درباری اپنی چرب زبانی سے بادشاہوں کو دربار ہی میں بیٹھے بٹھائے میدانِ جنگ میں لے جاتے، مفروضہ فتوحات کی نقشہ کشی کرتے اور خیال و خواب میں اُسے فتح یاب قراردلواتے ہوئے واپس دربار میں لا پٹختے۔یوں بادشاہ سلامت کرسی پر بیٹھے بیٹھے’’جنگ‘‘ کی تھکن سے چورہو کر ادھر اُدھر دیکھتا تو پلک جھپکتے ہی ’’ہنرمند‘‘ وزراء کی کلاکاری کی بدولت کوئی عشوہ طراز مغنیہ یا سراپا نازو ادارقاصہ اُس کی تھکن اتارنے کو بزم آرا ء ہو جاتی۔
عہدِ موجود میں یہ کام درباری وزراء کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے اُن بزرجمہروں نے بھی سنبھال رکھا ہے کہ جنہیں اِس کے علاوہ اور کوئی کام آتا ہی نہیں۔ اب اُن کی مدد کے واسطے صرف ’’خوش کلامی‘‘ میں یکتائی ہی نہیں بلکہ پاور پوائنٹ پروگرام میں بہت بڑی اسکرین پر رنگین خواب سجانے کو پروجیکٹربھی موجود ہے کہ جس پر اینیمیشن(animation) کے کمالات کے ذریعے سربہ فلک عمارات ، بَل کھاتے بس ٹریک اور جگمگ کرتے انڈر پاس پَل بھر میں تعمیر ہو کر دیکھتی آنکھوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔جی حضوری کی رال میں لتھڑی ہوئی زبانیں اِس طرح سے خوشامد کا جال بنتی ہیں کہ صرف وہی دکھائی دیتا ہے جو وہ دکھانا چاہتے ہیں اور وہی سنائی دیتا ہے جو وہ سنانا چاہتے ہیں۔کم حیثیت رتبے کے یہ درباری اپنے سے بڑی حیثیت کے مناسب پر براجمان رہنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں کہ جنہیں نہ تو غیرت گوارا کرتی ہے اور نہ ہی حمیت۔ایسے میں سننے، سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی حکومتی عملداری قطرہ قطرہ زوال کی ڈھلوانوں کی جانب بہتی ہوئی تاریخ کے مدفن کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔
کسی بھی حکومت کی طبعی زندگی کا یہ دورانیہ وہ بدقسمت عرصہ ہوتا ہے کہ جب خلق خدا کے پاس دینے کو سوائے بد دعاؤں کے اور کچھ نہیں ہوتااور حاکموں کے ہاں یہ بددعائیں سمیٹنے کو بہت سی جگہیں ہوتی ہیں یعنی انسانوں سے خالی محلات اور دولت سے تہی خزانے۔ہر طرف سے اُٹھتی ہوئی انگلیاں اپنے فطری رد عمل میں اُن کے ہاں احساس کی رمق بھی باقی نہیں رہنے دیتیں اور حکومت کاکام صرف عجلت میں کئے گئے فیصلوں کا ظالمانہ نفاذ رہ جاتا ہے ۔خزانہ بھرنے کی ناکام کوششوں میں ٹیکس پر ٹیکس اور بند مٹھی سے پھسلتی ہوئی حاکمیت کو بچا رکھنے کے عمل میں لا یعنی احکامات کی بھرمار۔کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ ہونا کیا ہے اور کرنا کیا ہے۔ایسے میں ہر کسی سے بگاڑ، عدم اعتماداور شکررنجی اِس حد تک پاؤں پھیلاتے ہیں کہ دیواروں سے سر ٹکرانا محاورہ نہیں بلکہ حقیقت لگنے لگتا ہے۔محمدبن تغلق نے منگولوں کی لشکر کشی سے بچ رہنے کے لیے1327ء میں دہلی کی بجائے دولت آباد کو دارلخلافہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ جو دہلی سے سات سو میل دور تھا۔ عوامی سطح پر اِس ناپسندیدہ فیصلے نے ایک عالی دماغ حکمران کو اِس لیے بھی نفرت کی علامت بنا دیا کہ اِس کا نفاذ ظالمانہ تھا۔ہنستے بستے گھروں کو برباد کردینا ، غریب غرباء کو روٹی روزی کے وسیلوں سے محروم کر دینااور محض ایک چھوٹی سی اقلیت کو نوازنے کے لیے اکثریت کو اجاڑ دینے کا عمل دیکھنا ہو تو لاہور میں اورنج ٹرین کے ٹریک کے ارد گرد رہنے اور کاروبار کرنے والے لوگوں کا حال دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بے نوا رعیت خوشحالی سے بدحالی کے پاتال میں اترتی ہے۔ابھی چند یوم قبل صدرِ مملکت کے بنوں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کئے گے خطاب میں اربو ں روپے کے قرضوں کی لوٹ کھسوٹ کا ذکر ہوا ۔انہوں نے نہایت درد مندی سے کہا کہ گذشتہ چار برسوں میں پاکستانی قوم کی آئندہ نسلوں پر اتنا بڑا بوجھ لادے جانے کے باوجود نہ تو ملک میں کوئی ڈیم بنا اور نہ ہی کوئی ہسپتال۔ لیکن اِس کے باوجود اِس عمومی تبصرے سے قطع نظرایک ضمنی بجٹ کے ذریعے بے محابہ ٹیکس لگا کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ہے۔
انگریزی زبان کے ایک لفظ frustrationکے عملی اطلاق کودیکھنا ہو توابھی دوروز قبل کے اخباروں میں شائع ہونے والی خبر کو دیکھ لیجئے کہ جس کی رو سے بوڑھے پنشنروں اور بیواؤں کے مرکز قومی بچت میں کھولے گئے بہبود اکاؤنٹس پرملنے والے اب تک کے تاریخی قلیل منافع پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو بھی واپس لے لیا گیا ہے۔کیسا اندھیر ہے کہ ایک جانب کروڑوں اربوں کی دہاڑیاں، اللے تللے اور دوسری جانب بوڑھے پنشنروں اور بیواؤں کی زبوں حال زندگی میں تنکے کے برابر آمدنی پر بھی انکم ٹیکس۔ساغر صدیقی بے اختیار یاد آرہے ہیں کہ جنہوں نے ایسے ہی حالات کی نشاندہی اپنے اِس شعر میں کی تھی؛
جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
حکومت کا اختیار ایک چین آف کمانڈ کی صورت نافذ ہوتا ہے ۔ پولیس کانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک اور پٹواری سے لے کر چیف سیکریٹری تک سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ کس نے کب کیا کرنا ہے۔مگرجب مقتدراپنی حاکمیت کے تقاضوں سے بے خبر ہو کراِس کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے تو تھانے کا محرر اُس وقت تک ایف آئی آر درج نہیں کرتا کہ جب تک وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اس کا نوٹس نہ لے لیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایس ایچ او کے اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں تو وہ ایس ایچ اوسے کیوں پوچھے۔جب تک کسی ہسپتال کا ایم ایس معطل نہ ہو تو وہ ڈاکٹر سے پوچھتا ہی نہیں کہ کسی حاملہ عورت نے بچے کو وارڈ کے بستر کی بجائے سڑک پر یا ہسپتال کے برامدے میں کیوں جنم دیا۔ پٹواری کو علم ہے کہ اُس کی رشوت پر قدغن ہو ہی نہیں سکتی کہ بڑے صاحبوں کے دورہ جات اور کھابہ گیری کا بندوبست اُسی نے کرنا ہے۔
اِن سبھی باتوں کا اظہارآج شاید نہ ہو پاتا اگر میں ہر روز صبح سے رات گئے تک اسلام آباد کی نام نہاد ’’ایکسپریس وے‘‘ پر رینگتی ہوئی ٹریفک کا یرغمالی نہ ہوتا۔فیض آباد سے جی ٹی روڈ کو ملانے والی یہ رابطہ سڑک حقیقت میں اب اسلام آباد کے گنجان ترین شہری علاقوں کو مربوط کرنے کا واحد ذ ریعہ ہے کہ جس پر بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس کے سبھی فیزز کے مکینوں کے علاوہ درجنوں پوش اور متوسط آبادیوں کے رہنے والے ہزاروں لوگ ہر روز اپنی اپنی سواریوں کے ذریعے اسلام آباد کے مرکزی دفاتر کا رخ کرتے ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ ہمارے عمومی رویوں کی طرح اِس تنگ سڑک پر ہر سائز کے ہزاروں ٹرک بھی یہ خیال کئے بغیر چھوڑ دیے جاتے ہیں کہ شہری علاقوں کی حدود میں بھاری ٹریفک رات گیارہ بجے سے پہلے نہیں جانے دی جاتی۔لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ کسی بھاری سے بھاری ٹرک کو دن دیہاڑے جی ٹی روڈ سے پیر ودھائی تک آنے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر ’’ سو پچاس روپے ‘‘ والے نوٹ میں طاقت زیادہ ہے یااس کے سبب ٹریفک جام میں پھنسے ہزاروں لوگوں کے ذہنی تناؤ کی صورت کھولتے ہوئے خون اورہزاروں گاڑیوں میں کئی کئی گھنٹے جلنے والے پٹرول کی اہمیت اور وقعت برتر ہے۔میرے سمیت جس صورتحال کا سامنا ہزاروں لوگوں کوصبح سے رات گئے اسلام آباد کی اس ’’ایکسپریس وے‘‘پر کرنا پڑتا ہے وہ ہمارے حکومتی عمال کی کارکردگی کاآئینہ ہے۔ اُسے دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جس سکتا ہے کہ جب کسی حکومت کی رِٹ سے اُس کا ادنیٰ سے ادنیٰ کارندہ بھی خوف زدہ نہ ہو اورمن مانی کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہ کپکپائے تو سمجھ لیجئے کہ اُس حکومت کا نظام محض سو پچاس روپے کے نوٹ پر چل رہاہے۔
فیس بک کمینٹ