اماں دادا کی پسند تھیں۔ جبکہ ابا چاہتے تھے کہ ان کی شریک حیات ان کی پسند سے ہو۔خاندان کی تمام لڑکیاں ابا سے عمر میں کافی بڑی تھیں اور اماں ان تمام لڑکیوں سے چھوٹی اور ابا سے تقریبا5برس بڑی تھیں۔جب ابا کی نسبت اماں سے طے کرنےکا اعلان ہوا۔تو ابا نے کافی ہنگامہ برپا کر دیا کہ وہ اماں سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔مگر دادی نے صرف ایک ہی جواب دیا کہ برخوردار اپنے ابا سے بات کرو میں اس معاملے میں تمہاری کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔اب دادا کے سامنے ابابات کریں تو کیسے کریں ۔۔ کیونکہ دادا کے سامنے تو ابا کی گگھی بندھ جاتی۔اور اوپر سے دادا کا جاہ وجلال خدا کی پناہ ۔۔۔۔بچپن سے ابا حضور صرف دادا کی ہی سنتے آئے تھے دادا ابو کو صرف سنانا ہی آتا تھا۔ابا سمیت کسی کی بھی ہمت نہ تھی کہ دادا کے سامنے چوں بھی کر جاتے۔ ابا ہمیشہ دادی کے سامنے ہی اپنی بھڑاس نکالتے۔اماں سے شادی کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔۔۔دادی کوبتایا کہ وہ بہار بیگم(اماں )سے شادی نہیں کر سکتے۔کیونکہ وہ عمر میں مجھ سے خاصی بڑی ہیں جس کی وجہ سے ہماری جوڑی بےڈھنگی جوڑی کہلائے گی۔اور لوگ ہمارا مذاق اڑائیں گے۔ابا کا واویلا بڑے عروج سے جاری و ساری تھا کہ اچانک دادا کی گرج دار آواز سنائی دی۔سنو برخوردار عورت مرد سے عمر میں چاہے جتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو لیکن وہ ہمیشہ مرد سے چھوٹی ہی کہلاتی ہے۔ اور لوگوں کی تم نے خوب کہی جو کسی کو بھی کسی حال میں خوش نہ رہنے دیں۔لہذا میں تمہاری یہ فضول کی بکواس نہ سنوں۔شادی تو تمہیں بہار بیگم سے ہی کرنا ہوگی ورنہ ہم تمہیں جائیداد سےعاق کر دیں گے۔اور یوں ابا کو نہ چاہتے ہوئے بھی اماں سے مارے باندھے نکاح کرنا پڑا۔شادی کی پہلی رات سے ہی ابا کا رویہ اماں سے سرد رہا۔جسے ہم دونوں بھائیوں کی پیدائش بھی ختم نہ کر سکی۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے ہی اکثراماں کو چھپ چھپ کر آنسو بہاتے دیکھا۔ اماں کے یوں چھپ چھپ کر رونے کا عقدہ تو تب کھلا جب ہم نے ابا کو ان شریف زادیوں کے پاس جاتے دیکھا۔جو بظاہر شرعی طور پر تو اپنا گھر بسا چکی تھیں۔لیکن ساتھ ساتھ کئی گھرانوں کی بہو بیٹوں کی سوتن کا کردار بھی بخوبی نبھا رہی تھیں۔اور کبھی کبھار تو ہم دونوں بھائیوں کو ان کی کوکھ میں پرورش پانے والے بچوں پر بھی شک ہوتا کہ کہیں ان میں کوئی ابا کی نشانی ہی نہ ہو۔ وہ مئی کا ایک گرم اور بد ترین دن تھا جب میں کالج سے لوٹا۔ گھرکی گھنٹی بجائی مگر دروازہ نہ کھلا۔ شائد بجلی چلی گئی ہو یہ سوچ کر میں نے دروازہ بجانا شروع کر دیا۔وقفے وقفے سے میں دروازہ بجاتا رہا مگر دروازہ نہ کھلا۔مجھے کسی انہونی کا احساس ہونے لگا تو میں دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا۔میں اماں اماں پکارتا گھر کے تمام کمروں میں اماں کو تلاش کرتا رہا۔مگر مجھے کہیں سے بھی اماں کی آواز سنائی نہ دی۔مجھے لگا کہ شائد اماں گھر کے پچھواڑے میں نہ ہوں یہ سوچ کر میں گھر کی پچھلی جانب چلا گیا۔مگر جیسے ہی میں نے گھرکے پچھلے حصے میں قدم رکھا تو اماں کو دائیں کروٹ لیٹے دیکھا تو اماں کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے جیسے ہی میں نے اماں کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا تو اماں کا وجود ایسے سیدھا ہوا جیسے روح نے وجود کا ساتھ چھوڑ دیا ہو ۔اماں کا بازو اتناٹھنڈا تھا جیسے کسی برف کے ڈلے پر ہاتھ رکھ دئیے ہوں۔میں اماں اماں پکارتا اماں کو سیدھا کرنے لگا تو یکدم اماں کے ہاتھ سے ایک پرچہ نیچے گر گیا۔میں نے جیسے ہی وہ پرچہ کھول کر دیکھا تو وہ عدالت کی طرف سے اباکو ناجائز اولاد کےاخراجات کا نوٹس تھا۔ جسے پڑھ کر اماں اتنی دلبرداشتہ ہوئیں کہ دنیا سے ہی منہ موڑ گئیں۔اور یوں ابا کی رنگین مزاجی اماں کو تاریکی چاردیواری میں لے گئی۔
فیس بک کمینٹ