لاہور : اردو کے نامور انشائیہ نگار ، مزاح نگار ، نقاد ، ادیب ، شاعر اور ماہرتعلیم سید مشکور حسین یاد 11 نومبر کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ مشکور حسین یاد حصار( مشرقی پنجاب) میں 11 ستمبر 1925 ء کو پیدا ہوئے۔ لکھنے پڑھنے سے دلچسپی تھی چنانچہ پہلے ایک ہفتہ وار اخبار (پکار)کی ادارت سنبھالی پھر راشننگ کے محکمہ میں انکوائری افسر ہوگئے لیکن جلد ہی اس محکمہ کو چھوڑ کر مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی اسکول میں انگریزی کے استاد بن گئے۔ ابھی ایک ماہ بھی نہ پڑھایا تھا کہ اگست 1947ء میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ والد صاحب کے علاوہ ان کی ماں، بیوی، بیٹی اور بھائی اور دوسرے قریبی عزیز شہید ہوئے۔ آزادی کی راہ میں اتنی بڑی قربانی دے کر نومبر 1947ء میں مشکور حسین یاد لاہور پہنچے۔ 1955ء میں اردو میں ایم اے کیا اور 1960ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ مشکور حسین یاد کی نثری تصانیف میں آزادی کے چراغ، جوہر اندیشہ، دشنام کے آئینے میں، بات کی اونچی ذات، اپنی صورت آپ، لاحول ولا قوۃ، ستارے چہچہاتے ہیں، مطالعہ انیس کے نازک مراحل ، میں اْردو ہوں، غالب نکتہ جو، وقت کا استخارہ، ستم ظریف اور ممکنات انشائیہ اور شعری مجموعوں میں پرسش، پرداخت، برداشت، عرضداشت اور نگہداشت شامل ہیں جبکہ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ” آزادی کے چراغ“ ہے جس کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اس کے علاوہ وہ چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ”پکار “ 1945ء ایڈیٹر ماہنامہ ” زعفران“ لاہور ایڈیٹر ماہنامہ ” چشمک“ لاہور بھی رہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا.
فیس بک کمینٹ