تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 30دن تقریباً مکمل ہو چکے ہیں ان 30دنوں میں حکومتی کارکردگی پر طرح
طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کی ناقص
کارکردگی کے بارے میں ایک طوفان برپا ہے۔اگرچہ حکومت کو قائم ہوئے اتنا زیادہ عرصہ نہیں ہوا مگر میرے خیال میں پہلے30دنوں میں کسی بھی حکومت کی سمت کا تعین ضرور ہو جاتا ہے غیر جانبدارانہ طور پر اگر موجودہ حکومت کی
کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان 30دنوں میں حکومت نے عوام اور
اپنے ووٹرز کے اعتماد میں اضافہ کی بجائے کمی کی ہے اور قدرے مایوس کیا
ہے ایسی مایوس کن صورتحا ل میں جہاں دوسرے بہت سے عوامل کار فرما ہیں وہاں حکومتی وزرا ء مشیروں اور بیورو کریسی کا رویہ بھی نمایاں اور اہم رہا ہے اس
کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت قائم ہوتے ہی ایشوز کی بجائے نان ایشوز
میں الجھ گئی کفایت شعاری سادگی اور بچت مہم اچھی چیز ہے ضرور ہونی چاہئے
مگر ان پر عملدرآمد 6-5ماہ بعد شروع کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ پہلے کچھ
ایسے انقلابی اقدامات اور اصلاحات کی جاتیں جن سے عوام کو تھوڑا بہت
ریلیف ملتا اور وہ سابقہ حکومت کے دور سے خود کو بہتر محسوس کرتے مگر
حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کارکردگی دکھانے کی بجائے وہ اقدامات و
اعلانات کئے جن سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوا یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر
روٹ لگانے کی بجائے ہیلی کاپٹر کا استعمال ہو یا قیتمی گاڑیوں ، ہیلی
کاپٹرز اور بھینسوں کی نیلامی ۔ یا پھر وزیراعظم ہاؤس میں رہنے کی بجائے
ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہائش اختیار کرنے کا معاملہ ہو گورنر ہاؤسز
کھولنے کے اعلانات ہوں یا وزیراعظم ہاؤس کو تحقیقی یونیورسٹی بنانے کا
پروگرام ہو سب غیر مؤثر اور بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ عام آدمی کو ان
چیزوں سے کوئی سروکار نہیں حکومتی مقبولیت میں کمی میں اس کے اپنے وزرا
اور ارکان اسمبلی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ایسا لگتا ہے کہ ان ارکان
اسمبلی اور وزرا کا نہ کوئی وژن ہے اور نہ کوئی تربیت ہے سب سے پہلے
حکومت کو خاور فرید مانیکا کے معاملہ پر خفت اٹھانا پڑی پھر راجن پور اور
جام پور کے ڈپٹی کمشنرز نے حکومتی ارکان اسمبلی پر سرکاری معاملات میں
مداخلت کے الزام لگائے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے حاجن
،نرگس اور میگھا کے بارے بیان دے کر خوار کیا اور پھر معافی مانگ کر جان
چھڑائی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سب سے پہلا کلہاڑا وفاق کی
علامت ادارے ریڈیو پاکستان پر چلایا ملازمین کے احتجاج پر پیچھے ہٹے
وزیراعظم نے خود قومی اقتصادی امور کیلئے ایک قادیانی میاں عاطف کو مشیر
نامزد کیا دینی جماعتوں کے احتجاج پر فیصلہ واپس لینا پڑا جس کے نتیجہ
میں میاں عاطف کے ساتھ ساتھ دو اور مشیر بھی خدا حافظ کہہ گئے زلفی بخاری
ان کی بہن ملیکہ بخاری کی نامزدگیوں پر بھی اعتراضات اٹھے اور اقربا
پروری کے الزامات لگ رہے ہیں رہی سہی کسر وزیر خزانہ اسد عمر نے پوری کر
دی جو مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بڑے بلند باند دعوے کرتے تھے مگر وزیر خزانہ بنتے ہی پہلے تو کچھ دن نظر ہی نہ آئے اور جب نمودار بھی ہوئے تو
منی بجٹ کی صورت میں عوام پر مہنگائی کا وہ بم گرادیا کہ ہر چیز عام آدمی
کی قوت خرید سے باہر ہوگئی لگتا ایسا ہے کہ تحریک انصاف کو جلسوں جلوسوں
کے باوجود اپنے اقتدار میں آنے کا یقین نہ تھا اور اب جبکہ لولا لنگڑا
اقتدار ان کو مل چکا ہے تو ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اسے کیسے چلایا جائے
حکومتی سطح پر دو ہی وزرا سرگرم اور متحرک دکھائی دے رہے ہیں ان میں ایک
ہمارے ملتان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دوسرے وزیر اطلاعات فواد
چودھری ہیں وزیر اطلاعات فواد چودھری کے متحرک ہونے کے باوجود ان کی
کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے کپتان کی طرح پہلے بولتے ہیں پھر
سوچتے ہیں اور ہر بار جو بولتے ہیں اس پر ان کو معافی مانگنا پڑتی ہے
موجودہ حکومت کی کارکردگی کی راہ میں جہاں اس کے اپنے ارکان اسمبلی وزرا
مشیران رکاوٹ ہیں وہاں وفاق اور خصوصاً پنجاب میں عرصہ35سال سے قابض
بیورو کریسی بھی سپیڈ بریکر کا کردار ادا کررہی ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ
بیورو کریسی نے موجودہ حکومت کو اب تک کھلے دل سے تسلیم ہی نہیں کیا اس
کی کیا وجوہات ہیں اس پر لکھنے کیلئے الگ مضمون درکار ہو گا یہی وجہ ہے
جب بھی کوئی وزیر کسی ادارے کیخلاف ایکشن لیتا ہے تو اس ادارے کا سرکاری
آفیسر فوراً واویلا کر دیتا ہے شاید اسی وجہ سے وزیر اطلاعات فواد چودھری
بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب سرکاری ادارے اور وزرا ایک پیج پر
نہ ہوں تو کارکردگی دکھانا ناممکن ہوتا ہے مگر مایوسی کی بات نہیں عدلیہ
اور فوج حکومت کی پشت پر ہیں حالانکہ یہ بھی ان کی خام خیالی ہے عدلیہ
اور فوج حکومت کی پشت پر نہیں ریاست کی پشت پر ہیں اور دونوں ادارے وہ
کریں گے جو ریاست کیلئے ضروری ہو گا قصہ مختصر اب تک کئے گئے حکومتی
اقدامات کے نتیجہ میں عوام مایوس اور اپوزیشن مضبوط ہو رہی ہے اگر
وزیراعظم عمران خان نے واقعی نیا پاکستان بنانے کے نعرہ کو پورا کرنا ہے
تو انہیں خود آگے آنا ہو گا سب سے پہلے اپنی جماعت پر گرفت مضبوط کرکے
دکھانا ہو گی پھر اپنے اراکین اور وزرا کو سختی سے ہدایت کرنا ہو گی کہ
وہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر سنجیدگی اپنائیں اور وہ کام کریں جن کا وعدہ قوم
سے کر کے آئے ہیں پنجاب میں بے نامی وزیر اعلیٰ کو متحرک اور فعال ہو کر
صوبائی بیورو کریسی پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہو گی اگر وزیراعظم ایسا نہ
کر سکے تو پھر شاید اس قوم کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملے اور پھر کوئی
نیا لیڈر یا پارٹی کوئی نیا نعرہ لے کر عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے میدان
سیاست میں وارد ہو جائے۔
فیس بک کمینٹ