خبر افسوس ناک تھی مگر مجھے تعجب نہیں ہوا کہ درندوں کے خونخوار جبڑوں میں جکڑے اس لہو لہان ہجوم میں بھلا ایک نفیس اور سچے انسان کا کیا کام ؟ اسے پہلے ہی اٹھ جانا چاہیے تھا مگر اب وہ امر کردیا گیا۔ حسینی قبیلے سے نسبت بھی اسے کافی تھی مگر وہ دو سنگین جرائم کا براہ راست مجرم تھا ۔ ایک جرم اس کا سچ بولنا اور دوسرا آن دی ریکارڈ سچ بولنا تھا۔ ایک ایسا ہجوم جہاں عالمی دہشت گرد دندناتے پھریں، سرکاری سلامی وصول کریں، جب چاہیں جہاں چاہیں اپنے پنجے گاڑدیں ، سرعام، لاﺅڈ سپیکر پر اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججوں اور فوج کے بااثر جرنیلوں کو گالیاں دیں، کفر کے فتوے جاری کریں، انہیں ”جہنم واصل “ کرنے والے کے لئے انعامات کا اعلان کریں اور پھر بھی سکون سے اپنی نیندیں پوری کریں ، کوئی ادارہ ان کی حرکات کو قابلِ تعزیر نہ سمجھے ایسے حالات میں علی رضا عابدی جیسے کھرے سیاستدان کو تو قتل ہی کردیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اگر عابدی جیسے لوگ رہ جائیں تو پھر درندوں ، دہشت گردوں اور مذہب فروشوں کی موت نوشتہ دیوار تھی۔
علی رضا عابدی نے صرف اپنے حسنِ اخلاق اور ملنساری کے سبب NA-٢٥٠کا الیکشن جیتا تھا اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر الیکشن 2018ءمیں وہ NA-243سے عمران خان سے ہار گئے ۔ پارٹی اختلافات کی وجہ سے وہ ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے ۔ اب ”ان کے قتل کو شہر کا امن خراب کرنے کی سازش “ کہا جارہا ہے اور کوئی اسے فرقہ ورانہ دہشت گردی کا نام دے رہا ہے۔ خبر کے مطابق ان کو جن دہشت گردوں نے قتل کیا وہ ”نامعلوم موٹر سائیکل سوار“ تھے مگر کیا وہ واقعی نامعلوم تھے؟ اگر وہ نامعلو م تھے تو پھر ”معلومات“ والے ادارے کیا کررہے ہیں؟ چھوٹے چھوٹے بچوں کو یتیمی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والے یہ ”نامعلوم“ دہشت گرد نہ جانے کب تک بے نقاب ہونگے مگر شائد کبھی نہیں ہونگے ۔ بقول ساغر صدیقی :
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
رہبری اور رہزنی ایک ہی صف میں کھڑی ہے تو پھر ہر خونی ہاتھ دستانے پہنے ہوئے ہی ملے گا ، ہر خونخوار جبڑا نامعلوم نقاب پوش ہی ہوگا۔ علی رضا عابدی کے قتل کے بعد بھی وزیر اعظم پاکستان نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔ وزیر داخلہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے حکم جاری کرے گا ۔ تفتیش کیلئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی ۔ کچھ مشتبہ افراد حراست میں بھی لئے جائیں گے اور پھر یہ قتل بھی پولیس کی بوسیدہ مثلوں میں دفن ہوجائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی کی صورتحال ایک بار پھر خون آلود ہوتی جارہی ہے کہ چند روز قبل پاکستان سرزمین پارٹی کے دفتر پر حملہ اور دو کارکنان کی موت ، اس سے پہلے کلفٹن میں چینی قونصل خانے پر بی ایل او نامی کالعدم تنظیم کا حملہ اس بات کا غماز ہے کہ دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں میں جو رکاوٹیں تھیں وہ کم یا ختم ہوتی نظر آرہی ہیں اس لئے وہ جسے جب چاہتے ہیں اپنا ہدف بنا لیتے ہیں ۔ نہ جانے وہ نیشنل ایکشن پلان کہاں گیا جس کی کڑوی گولی جمہوریت کے ہر کھلاڑی نے نگلی تھی جب ملٹر ی کورٹس کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا۔
قتل و غارت کا بیج بونے والے اب سرخرو ہونگے کہ سر کٹنے کی رسم جو کچھ تھمی تھی اب پھر اپنے عروج پر ہے ۔ ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے دعویدارروں کو دیکھنا ہوگا کہ ان کے ملک گیر آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے نتائج پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں ۔ کراچی کا اقتصادی ہب دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے ملکی معیشت جو پہلے ہی حالت نزع میں ہے شائد دیوار خستگی ثابت ہو۔
حقیقت حال تو یہ ہے کہ قاتلوں نے اسلام آباد اور کراچی جیسے محفوظ شہروں میں بھی کامیابیاں حاصل کرکے امن و امان قائم کرنے والے اخباری بیانات کے لفظوں سے معنی چھین لئے ہیں ایسی ہی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے محسن نقوی کے بقول :۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے کا افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
فیس بک کمینٹ