لوگ حیران ہیں کہ کوئی بیک وقت حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پارٹی حکومتی بنچوں پربھی براجمان ہو اور اپوزیشن نشستوں پربھی نظرآئے۔لیکن اب تو حیرت کے سب سامان ختم ہوچکے۔حیرت ہمیں ان پر ہوتی ہے جو اب بھی حیران ہوتے ہیں اورایک ایسے معاشرے میں پریشان ہوتے ہیں جس کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ آچکی ہے کہ یہاں جنوبی ایشیاءکے سب سے زیادہ خوش باش لوگ آباد ہیں۔جس معاشرے میں منصف اور مجرم کی تمیز ختم ہوچکی ہو اور جہاں توہین و تکریم کے درمیان بھی کوئی حد فاصل نہ رہے ،فریاد نہ کرنے والا فریادی کہلائے یاجہاں مسیحا لوگوں کی جان لینے کے درپے ہوں وہاں اس قسم کے سوالات بے معنی ہوجاتے ہیں۔حیران ہمیں وہاں ہونا چاہیے جہاں معمول کے معاملات ہورہے ہوں اوروہ معاملات غیرمعمولی حالات کے باوجود درست بھی ہوں۔
قصور کسی اور کانہیں اس مرتبہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے الیکشن نے کچھ اس طرح سے سب کو چکرا دیا کہ لوگ اب تک اس الیکشن کے نتائج ہی نہیں سمجھ پائے۔کون کہاں سے امیدواربنا اور کون راتوں رات سب کا منظور نظر ہوگیا یہ بات اگر آسانی سے سمجھ آرہی ہوتی توکنگ پارٹی کا قیام بھی سب کو سمجھ آجاتا۔ لیکن سینیٹ کی چیئرمینی کے الیکشن میں تویوں لگتا ہے جیسے سب کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔اب آپ اس میں سے بے شک خفیہ ہاتھ تلاش کرتے رہیں لیکن جو ہاتھ ہے ہی خفیہ اسے آپ بھلاتلاش کیسے کرسکیں گے۔ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم بلاوجہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری مقتدر قوتوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔اور پھر اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق حالات و واقعات کا جائزہ لیتے اورماتم کرتے رہتے ہیں۔
آج کل لوگ سینیٹ کے انتخابات اور عدالتی فیصلوں میں سے مستقبل کامنظر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔اور انہیں کوشش کرنا بھی چاہیے۔ جب ہمیں کسی نے یہ بتایا کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب چونکہ صادق بھی ہیں اور امین بھی ، اس لیے وہ اپنی چیئرمینی چھوڑ کر مستقبل کے عام انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں توہمیں اس خبر پر قطعاً کوئی حیرت نہ ہوئی۔خبر سنانے والے نے یہ بھی کہاکہ سنجرانی صاحب شاید بلوچستان کے وزیراعلی بننا چاہتے ہیں اس لیے وہ سینیٹ کی چیئرمینی چھوڑنے کے بعد صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ہم نے کہاکہ بھائی اگر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے والے اس نوعیت کے منصوبے بنانے لگ جائیں جو آپ اور ہم جیسے عام تام لوگوں کوبھی سمجھ آجائیں تو پھر ان میں اور ہم میں فرق ہی کیا رہ گیا۔سنجرانی صاحب کیا سینیٹ کا چیئرمین بننے کے بعد بھی ابھی صوبائی سطح کے لیڈر ہیں جو وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے؟
ہم نے مانا کہ آنے والا دور عام انتخابات کا ہے اوریہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ یہ انتخابات کتنے برس بعد ہوں گے۔کچھ تجزیہ نگار وں(جن کی دور کی نگاہ درست ہے)کو انتخابات مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہے،اور ان کا کہنا ہے کہ ان انتخابات سبے پہلے کڑا احتساب بھی ہوگا اور صاف ستھرے لوگوں پر مشتمل نگران حکومت بھی بنے گی۔صفائی اورستھرائی کے یہ معاملات ہم برس ہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ایسے میں ہر مرتبہ فیصلہ کرنے والے کچھ لوگ سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور کچھ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جوان کی منشاءکے مطابق کام کرسکیں۔یقیناً وہ لوگ اب بھی سرجوڑ کر بیٹھے ہوں گے اور مناسب لوگ ان کی دسترس میں بھی ہوں گے۔ بظاہر تو سب کو لاڈلا ایک ہی نظرآرہاہے اور وہ لاڈلا کھیلن کو اقتدار مانگتا ہے۔اسی لیے وہ انوکھا لاڈلا بھی کہلاتا ہے۔اگر آپ یہ سمجھیں کہ ہمارا اشارہ عمران خان کی طرف ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہوگی ۔ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہاں جو ہورہا ہوتا ہے وہ ہوتانہیں اور جو ممکن نہیں ہوتا وہ ہوجاتا ہے۔ہونے اورنہ ہونے کا یہ کھیل اب کچھ زیادہ ہی غیرواضح اور مبہم ہوچکاہے۔جیسا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ حزب اقتدار اورحزب اختلاف میں تمیز کیسے ختم ہوگئی؟ اوراس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس وقت کا انتظار کرناپڑا جب شیری رحمان سینیٹ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر منتخب ہوگئیں، بالکل اسی طرح آپ کو ہماری اس بات پربھی یقین کرناپڑے گا کہ کھیلن کو اقتدارمانگنے والا انوکھا لاڈلا کپتان ہرگز نہیں۔
کپتان صاحب تو سیاست میں جوتا رائج ہونے کے بعد ویسے بھی خاصے محتاط ہوگئے ہیں۔جب سٹیج پر پہلا جوتا اچھالاگیا تو انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری تھرو بہت اچھی ہے اور میں کیچ کرنابھی جانتا ہوں۔ان کے اس بیان کے اگلے روز ہی ایک جوتے نے ان کی جانب بھی پرواز کی۔عمران خان اس وقت گجرات میںدھواں دھارتقریر کررہے تھے اور سلپ میں علیم خان موجودتھے جن کی نہ تھرواچھی ہے اور نہ وہ کیچ کرناجانتے ہیںسو وہ کم ظرف جوتا علیم خان کو آن لگا ۔اس واقعہ کے بعد گزشتہ دنوں ملتان میں فیصلہ یہ کیاگیا کہ جوتے کی سیاست سے نمٹنے کے لیے خود پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی میدان میں آئیں گے۔شاہ محمودقریشی عمران خان کے دورے کے دوران غیرمحسوس انداز میںکپتان سے پہلے گاڑی کی چھت پر آتے تھے ، حالات و واقعات اور ممکنہ جوتے باز کا جائزہ لیتے تھے اور جب وہ حالات کو قابو میں دیکھتے تو عمران خان کوتقریر کے لیے گرین سگنل دے دیتے تھے۔عمران خان ملتان میں عوام سے خطاب کے دوران ہر چوراہے پر یہ کہتے رہے کہ میں دعوی کرتا ہوں کہ آنے والا دور ہمارا ہے اور الیکشن میں جیت پی ٹی آئی کی ہوگی۔وہ یہ کہنے میں حق بجانب اس لیے تھے کہ جس روزوہ ملتان کے دورے پر تھے اسی روز یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ معروف سیاست دان حامد ناصرچٹھہ کو انتخابات سے پہلے نگران وزیراعظم بنایا جارہاہے ۔حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے چونکہ پی ٹی آئی میں ہیں اس لیے اقتدار کا خواب دیکھنا کپتان کاحق بھی ہے۔اقتدار کاخواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن ہم نے پہلے یہ کہاہے کہ یہاں جو ہورہاہے وہ نظرنہیں آتا اور جونہیں ہونا وہ ہوجاتا ہے۔ایسے میں جب حامد ناصر چٹھہ کی نگرانی میںعام انتخابات ہوں گے تو پھر نتائج جوبھی ہوں ان پر دھاندلی کاالزام ہرگز عائد نہیں کیاجاسکے گا اورعام انتخابات کے بارے میں تو خود منصف اعلی کہہ چکے ہیں کہ آنے والے انتخابات 1971ءکے عام ا نتخابات کی طرح شفاف ہوں گے۔ قارئین کرام فرق صرف یہ ہوگا کہ 1971ءکے شفاف انتخابات کے بعد پاکستان دولخت ہوگیا تھا۔اس مرتبہ شفاف انتخابات کے بعد پاکستان متحد ہوجائے گا۔لیکن ایک بات جس پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا وہ یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی باربار یہ کیوں کہہ رہی ہیں کہ میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتی۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ