ملک اقبال حسن بھپلا خود کو چناب کا بیٹا کہتے تھے ۔وہ یکم مئی 1943ءکو ملتان میں پیدا ہوئے۔ان کے آباءواجداد کئی نسلوں سے دریائے چناب کے کنارے آباد تھے۔ اقبال حسن بھپلاایک سرگرم سیاسی و سماجی شخصیت کے طورپر جانے جاتے تھے۔انہوں نے ضیاءدور میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ۔دو بارکونسلر اور دومرتبہ ہی یونین کونسل قاسم بیلہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔1990ءکے عشرے میں ان کے جواں سال بیٹے شوکت حسن کا انتقال ہوا تو اقبال حسن بھپلا نے سیاسی و سماجی زندگی کو خیرباد کہہ کر شعر وادب کے ساتھ وابستگی اختیارکرلی۔وہ اس دوران شدید بیماربھی رہے۔ اقبال حسن بھپلانے چناب کے کنارے ایک جھوک آباد کی اور ملتان میں کشتیوں پر مشاعرے کی روایت ڈالی۔جھوک بھپلا میں کئی ادبی و ثقافتی تقریبات منعقد ہوئیں۔اقبال حسن بھپلانے صرف شاعری ہی نہیں کی اردو وسرائیکی ناول ،افسانے اور نثرپارے بھی تحریر کیے۔نظم ونثر میں ان کی کتابوں کی تعداد 12ہے۔30مارچ2009ءکو وہ انتقال کرگئے۔انہیں ان کے آبائی علاقے محمد پورگھوٹہ میں سپردخاک کیاگیا۔اقبال حسن بھپلاکی پانچویں برسی کے موقع پر ان کا ایک یادگار انٹرویو قارئین کی نذر ہے جوہم نے نومبر2006ءمیں کیا تھااور ان کی زندگی میں شائع بھی ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی علاقے کی ثقافت کو اجاگر کرنے اور سرائیکی زبان کے خدوخال نکھارنے میں بعض لوگ برس ہا برس سے سرگرم عمل ہیں ۔ شعر وادب ہو یا دیگر فنون لطیفہ ہمیں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کی ہوئی ہیں ۔ ایسی ہی ایک شخصیت اقبال حسن بھپلا کی ہے ۔اقبال حسن بھپلا خود کو چناب کا بیٹا کہتے ہیں ۔ ان کی ساری عمر اسی دریا کے ساتھ گزری۔ قاسم بیلا سے آگے دریا کے کنارے ایک بستی گھوٹیں کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اقبال حسن بھپلا نے اسی بستی میں آنکھ کھولی ۔ شاعری اور ادب سے ان کا تعلق 10 برس سے زیادہ پر محیط نہیں مگر ان دس برسوں کے دوران انہوں نے تخلیقی سفر بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ۔ اب تک نظم اور نثر میں ان کی بارہ کے قریب کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ جن میں سرائیکی شاعری ، سرائیکی ناول ، اردو ناول ، نثر پاروں اور سرائیکی نعتوں پر مشتمل کتب شامل ہیں ۔ اقبال حسن بھپلا پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہیں ۔ سیاست سے بھی تعلق رہا ۔ یونین کونسل قاسم بیلہ کے چیئرمین رہے مگر نہ وہ روایتی سیاستدان ہیں اور نہ ہی روایتی زمیندار ۔ شاعری کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 1996-97 ءمیں بیٹے کے انتقال کے بعد میں شدید بیمار ہوا ۔ کئی روز بے ہوش اور نشتر ہسپتال میں زیر علاج رہا ۔ شاعری کا تحفہ مجھے اسی دوران ملا ۔ مزاج تو ہمیشہ سے میرا مختلف تھا ۔ میں اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتا تھا ۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا ۔ مجھے جو لوگ ملنے آتے وہ اگر میرے سامنے زمین پر بیٹھتے تو میں اٹھا کر انہیں اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتا ۔ یہ بات ان کے لیے بھی حیران کن تھی اور علاقے کے دیگر زمینداروں کے لیے بھی ۔ ہمارے علاقوں میں تو یہ تصور ہی نہیں تھا کہ زمیندار اور دیگر کاشتکار و مزارعین ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر ملیں ۔ تو یہ درویشی تو پہلے سے موجود تھی ۔ بیماری کے دوران جب میں بے ہوش تھا تو اس دوران میں مسلسل چڑیوں کے بولنے کی آوازیں سنتا تھا ۔ یہی آواز تھی جو مجھے زندگی کا احساس دلاتی تھی ۔ ورنہ تو میں ایک طرح سے مر چکا تھا ۔ صحت یاب ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے کچھ لکھنا چاہیے ۔ چڑیوں کی وہ آواز مجھے لاشعوری طور پر کچھ سوچنے کا موقع دے رہی تھی ۔ یوں میری شاعری کا آغاز ہوا ۔ چڑیوں کے ساتھ ہی بہت سے مناظر فطرت میری شاعری کا حصہ بن گئے ۔ اب مجھے یوں لگتا ہے کہ جب تک چڑیاں بولتی رہیں گی میں شعر کہتا رہوں گا ۔ ایک سوال کے جواب میں اقبال حسن بھپلا نے کہا کہ مجھے ایک احساس یہ بھی ہوا کہ دنیا میں بقاءصرف کتاب کو ہے۔ جو چیز کتاب میں محفوظ ہو گئی وہ ہمیشہ زندہ رہے گی ۔ سو میں نے سوچا کہ اگر میں صرف ایک عام آدمی کے طور پر زندہ رہا تو مر جاﺅں گا ۔ میری موت کے بعد مجھے کوئی یاد نہیں کرے گا ۔ میں زندہ رہنا چاہتا تھا ۔ میں مرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس لیے میں نے شعروادب اور کتاب کے ساتھ تعلق جوڑ لیا ۔ اس طرح میں سیاست سے تو دور ہو گیا مگر ایک ایسے جہان میں آ گیا جس نے مجھے سکون دیا اور میرے اندر کی آواز لوگوں تک پہنچائی ۔ انہوں نے کہا کہ فطرت حقیقی دنیا ہے ۔ میں فطرت کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتا ہوں ۔ خود کو چناب کا بیٹا اس لیے کہتا ہوں کہ اس دریا کے ساتھ میرا اور میرے اجداد کا بہت پرانا تعلق ہے ۔ یہ دریا ہماری خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتا ہے۔ ہم شادیوں میں بھی جاتے ہیں تو کشتیوں میں بارات لے کر اس دریا کو عبور کرتے ہیں ۔ اقبال حسن بھپلا نے کہا کہ اس تعلق کو نبھانے کے لیے میں نے ایک مرتبہ کشتیوں پر مشاعرہ بھی کرایا تھا ۔ یہ سرائیکی علاقے کی ایک منفرد ثقافتی سرگرمی تھی۔ اس مشاعرے میں علاقے کے تمام اہم شعراءشریک ہوئے تھے اور یہ کئی گھنٹے جاری رہا تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فی زمانہ ڈمی ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔ ڈمی ادب ، ڈمی قاری اور ڈمی سامعین ، سب کچھ مصنوعی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ سب لوگ اپنی اصل سے نہیں جڑے ہوئے ۔ ان کی جڑیں اپنی دھرتی کے ساتھ نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ شاعری ہمیشہ ماں بولی ہی میں کرنی چاہیے۔ اردو بولنے والے اردو میں ، سرائیکی والے سرائیکی اور پنجابی بولنے والے پنجابی میں شعر کہیں۔ اگر کوئی اپنی ماں بولی چھوڑ کر کسی اور زبان میں شعر کہنے کی کوشش کرے گا تو اس میں تاثیر پیدا نہیں ہو سکے گی ۔ بات دل پر اثر نہیں کرے گی ۔ شعر میں جب تک معنویت نہ ہو اور کوئی الگ راہ نہ نکالی جائے اس وقت تک شعر سامع یا قاری کو متاثر ہی نہیں کرتا ۔ اقبال حسن بھپلا نے کہا کہ میں سرائیکی زبان کا حامی ہوں مگر سرائیکی صوبے کا مخالف ہوں ۔ میرے خیال میں الگ صوبے کی بات کرنا تعصبات کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔میں تو ون یونٹ کا حامی ہوں ۔ مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ تمام صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنا دیں ۔ آج بلوچستان ، سندھ اور سرحد میں جو مسائل ہیں وہ الگ صوبوں کے نتیجے میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اپنی دھرتی کے ساتھ ہماری محبت غیر مشروط ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میری یہ باتیں بعض لوگوں کو بری بھی لگتی ہیں مگر میرا مؤ قف اصولی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امن اور محبت کی بات کرنی چاہیے ۔ میں زبان اور مذہب کے نام پر تعصبات کا سخت مخالف ہوں ۔ ایک سوال کے جواب میں اقبال حسن بھپلا نے کہا کہ گروپنگ ادب میں ہی نہیں اداروں میں بھی در آئی ہے۔ مختلف اداروں میں اپنی اپنی لابی کے لوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے ۔ نصاب بناتے وقت بھی حقیقی لوگوں کو نظر انداز کر کے ڈمی لوگوں کو شامل کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں لوگ اپنے مفادات کی خاطر اپنے نظریات تک بیچ دیتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ جو شخص اپنے نظریات بیچ دے اس سے سستا کوئی نہیں ہو سکتا ۔
( بشکریہ : پنجاب لوک سجاگ )