پندرہ اپریل بھی خاموشی سے گزرگیا۔اگرچہ یہ پاکستان میں لسانی اور تعصبات کی سیاست کے حوالے سے بہت اہم دن تھا،ایک ایسادن کہ جس نے کراچی ہی نہیں پاکستان کی تاریخ پربہت گہرے اثرات مرتب کئے ۔یہ ایک ایسادن تھاکہ جس کے بعد کراچی میں آگ اورخون کا ایساکھیل شروع ہواجس کے بارے میں اب بھی یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ ختم ہواہے یانہیں ۔بتایا تویہ جاتاہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے کراچی میں قانون کی عملداری بحال کرلی ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کاخیال ہے کہ آگ اورخون کے کھیل میں سردست عارضی ٹھہراؤآیاہواہے۔ اور قارئین محترم ، دنوں کاکیاہے یہ تو گزر ہی جاتے ہیں ۔ یہاں تواور بہت سے دن بھی خاموشی کے ساتھ گزرجاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کبھی کچھ ہواہی نہیں تھا۔اورجیسے کبھی وہ دن ہماری زندگیوں میں آئے ہی نہیں تھے ۔ ہاں کچھ دن ایسے ضرورہیں کہ جن کی آمدپرہم حسب روایات کچھ واویلاکرتے ہیں ،کچھ آہ وزاری اور ماتم کرتے ہیں ،کچھ عہد کرتے ہیں اورکچھ الزام تراشیاں کرتے ہیں ۔لیکن پندرہ اپریل کادن توایسا بھی نہیں سمجھا جاتا۔
ہماری لائبریری میں بہت سے تاریخی اخبارات اوررسائل ایسے موجودہیں کہ جنہیں محفوظ رکھنا اب ہمارے بس میں نہیں رہا۔زمانے کی گرد کے ساتھ ساتھ ملتان کی گرد نے بھی ان اخبارات اورجرائدکواس حد تک خستہ کردیاہے کہ ہم انہیں اب ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے ہیں ۔لیکن گزشتہ کئی برسوں کے دوران جمع کئے گئے ان اخبارات اورجرائد میں ایسابہت ساخزانہ موجودہے کہ جس سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے ۔سوہم نے ان اخبارات کومحفوظ کرنے کے لئے فیس بک اورکیمرے کاسہارالیااوران کی تصاویر اپنی ڈیجیٹیل لائبریری میں محفوظ کرلی ہیں ۔ اگرچہ ان تصاویر میں کاغذاورمٹی کی وہ مہک نہیں ہے جوہمیشہ ہمارے دل ودماغ کو معطر رکھتی تھی اورجب ہم بہت سے اخبارات اور کاغذ اپنے گردپھیلاکر کوئی مضمون یاخبرتلاش کرتے تھے تویہ مہک ہمیں تھکاوٹ کااحساس نہیں ہونے دیتی تھی۔اسی خزانے میں کچھ اخبارات اوررسائل ایسے بھی تھے جن میں پندرہ اپریل 1985ءکے واقعات اوربشریٰ زیدی کی تصویریں محفوظ تھیں ۔آج کی نسل کے بہت سے نوجوا ن نہیں جانتے ہوں گے کہ بشریٰ زیدی کون تھی ؟ اور 15 اپریل کو کیا ہوا تھا ؟ ۔ 15 اپریل 1985 ءوہ دن تھا جب کراچی میں بشریٰ زیدی نامی طالبہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا ظہور ہوا۔ سرسید گرلز کالج کراچی کی یہ طالبہ ریس لگاتی ہوئی منی بسوں کی زد میں آئی اور موقع پر دم توڑ گئی۔ اس کی بہن نجمہ زیدی اورایک تیسری طالبہ بھی اس حادثے میں شدید زخمی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی اس حادثے کی خبر سرسید کالج پہنچی، وہاں کی طالبات احتجاج کے لیے سڑک پر آگئیں، قریب ہی واقع عثمانیہ کالج کے طلبہ بھی احتجاج میں شامل ہو گئے اور پھردیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج پورے کراچی میں پھیل گیا۔یہ وہ زمانہ تھاجب جنرل ضیاءالحق نے غیرجماعتی جمہوریت بحال کرکے چند ماہ قبل ہی مارشل لاءکے خاتمے کااعلان کیاتھا اور غوث علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے ۔ہنگامہ آرائی شروع ہوئی توبہت سی بسوں کو نذرآتش کردیاگیا، جن میں وہ بس بھی شامل تھی جس کی زدمیں طالبات آئی تھیں ۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بس ڈرائیورکو سزا دی جائے۔ کراچی میں چونکہ ٹرانسپورٹ پرپٹھانوں کاغلبہ تھااس لئے یہ ہنگامہ آرائی لسانی فسادات میں تبدیل ہوگئی اورکسی نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ بس کاڈرائیور پٹھان نہیں آزاد کشمیر کاباشندہ تھا۔پولیس نے طلبہ کو منتشرکرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کردیئے اورکچھ پولیس والے شیلنگ کرتے ہوئے اس گرلز کالج میں بھی داخل ہوگئے جس کی طالبات بس کی زدمیں آئی تھیں ۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ سے بے شمار طلباءزخمی ہو گئے اورپھر کراچی میں ایسی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی کہ جوپھیلتی ہی چلی گئی ۔وزیراعلیٰ کوحالات پرقابوپانے کےلئے فوج طلب کرناپڑی اورمتاثرہ علاقوں میں کرفیونافذ کردیاگیا۔اگلے روز بشریٰ زیدی کی نماز جنازہ کے موقع پرفسادات میں شدت آگئی اورنماز جنازہ کے بعد پورا کراچی لسانی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔یہ احتجاج بظاہرتوبس ڈرائیور کی گرفتاری کے لئے تھاتاہم اس کے نتیجے میں کراچی میں پختون مہاجرفسادات شروع ہوگئے ۔بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد ایک ہفتے تک کراچی آگ میں جلتارہا۔اس ایک ہفتے کے دوران کم وبیش 200افراد جاں بحق اوربے شمار زخمی ہوگئے ۔تمام تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ۔شہرمیں نامعلوم افراد نے نفرتیں پھیلانے والے پمفلٹ تقسیم کئے کراچی کے لوگوں نے پہلی بار اسلحہ بردار نوجوانوں کو دیکھاجو خدامعلوم کہاں سے آتے تھے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے فرارہوجاتے تھے ۔اس عرصے کے دوران ناظم آباد ،نارتھ ناظم آباد ،لیاقت آباداوراورنگی ٹاؤن سمیت کراچی کے بہت سے علاقے میدان جنگ بنے رہے ۔کئی مکانات نذرآتش کردیئے گئے اور دکانیں جلاکرراکھ کردی گئیں۔
1990 ءکے بعد سے بشریٰ زیدی کے اہل خانہ کاکسی کوعلم نہیں کہ وہ کہاں ہیں شاید انہوں نے کراچی یاپاکستان ہی چھوڑدیا۔لیکن اس حادثے کے اثرات آج بھی کراچی میں موجودہیں ۔بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعدہنگامہ آرائی کاآغاز طلبہ نے کیاتھا۔ ان ہی دنوں کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنی سیاسی شناخت کے ساتھ مہاجر قومی موومنٹ کے روپ میں سامنے آئی تھی، بشریٰ زیدی کے واقعے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹرکے پاس یہ بہترین موقع تھاکہ وہ کراچی کی سیاست کارخ تبدیل کرنے کےلئے ایم کیو ایم کی سرپرستی کرے سوالطاف حسین ،فاروق ستار ،طارق عظیم جواس سے پہلے طالب علم رہنماؤں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔اس واقعے کے بعد ان کی شہرت بلندیوں پرپہنچ گئی ۔ اس ایک واقعے نے کراچی کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا، مہاجر قومی موومنٹ کراچی کے لوگوں کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔صرف کراچی ہی نہیں حیدر آباد اورسکھر تک ایم کیوایم نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اورکراچی میں امن قائم رکھنے کےلئے اقتدارمیں ایم کیوایم کوحصہ دیناہرسیاسی جماعت کے لئے لازمی ٹھہر ا۔بعد کے دنوں میں الطاف حسین اوران کے ساتھیوں نے جوچاہا اورجیسے چاہا کراچی میں وہی ہوا ۔ایم کیوایم کی قوت توڑنے کےلئے کئی طرح کے منصوبے بنائے گئے۔ ایجنسیاں متحرک ہوئیں ، کبھی کوئی آپریشن ہوا توکبھی مذاکرات کے ذ ریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی یوںہوا کہ غیرحقیقی لوگوں پرمشتمل کوئی حقیقی گروپ قائم کردیاگیااورکبھی یوں ہواکہ مختلف دھڑوں نے شہر کے مختلف حصوں پرقبضہ کرلیا۔پھرپنجابی ،پختون محاذ بھی بنا اورپاک سرزمین شادباد کے ترانے بھی سنائے گئے لیکن پندرہ اپریل 1985ءسے پہلے کاکراچی ہمیشہ کے لئے خواب ہوکررہ گیا۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ