ویرانے میں پہلا را ستہ
شہر کی کسی بھی گلی اور کسی بھی کوچے سے گزرتے ہوئے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس گلی یا اس کوچے میں مجھ سے پہلے کون کون آیاہو گا ؟کسی امید اور یقین کے ساتھ آیاہو گا یا بے یقینی اور شکست خوردگی کے عالم میں ؟اور یہ سوال کہ ہم جس راستے سے دن میں کئی بار گزرتے ہیں یہ راستہ پہلی بار کس نے بنایا ہو گا ؟اورجہاں یہ گلیاں اور یہ کالونیاں ہیں اورجہاں یہ جدید پلازے تعمیر ہو رہے ہیں ،جہاں آج مارکیٹیں اور بازار ہیں یہاں کبھی ویرانہ ہو گا اور جب یہاں ویرانہ تھا تو وہ کون تھا جو پہلی بار ہر خوف کو بالائے طاق رکھ کر یہاں سے گزراتھا؟
کس نے پہلا نام لکھا تھا ؟
کسی مخدوش مکان کے دریچے یا بالکونی کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس دریچے سے جب پردہ سرکتا ہو گاتو کس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہوں گی ؟کون منتظر آنکھوں کی ویرانی میں اچھے دنوں کے خواب سجائے ان دریچوں اور بالکونیوں سے جھانکتا ہو گا اور جانے اس کے خواب پورے بھی ہوئے ہوں گے یا وہ منتظر آنکھیں پتھرا گئی ہوں گی؟اور پھر یہاں کی ادبی اور ثقافتی زندگی کیسی ہو گی ؟پہلی بار اس شہر میں کس نے کس کے لئے کوئی شعر کہا ہو گا ؟کب کہا ہو گا ؟اور جب کسی نے لکھنا بھی نہ سیکھا تھا کیا اس وقت بھی کسی نے کسی کا نام لکھنے کی کوشش کی ہوگی ؟
پہلے جو تصویر ہوا تھا
اور یہاں کے بت تراش کیسے تھے ؟کیا ان کے فن کی بھی ناقدری ہوتی تھی اور وہ بھی صادق علی شہزاد کی طرح کہتے تھے کہ میں جب مر جاﺅں تو ان مجسموں کو میرے ساتھ ہی دفن کر دینا؟ کون تھا جس نے ملتان میں پہلی تصویر بنائی تھی اور کون وہ خوش قسمت تھا جس کی اس شہر میں پہلی بار تصویر بنائی گئی ؟کینوس اور رنگ تو ابھی ایجاد بھی نہ ہوئے ہوں گے تو کیا وہ تصویر کسی دیوار پر کسی پتھر سے کندہ کی گئی تھی یا کسی نے اپنی مخروطی انگلیوں سے راوی یا چناب کنارے ریت پر وہ تصویر بنائی تھی۔
پہلی خبر سنانے والا
کون تھا جس نے شہر کے لوگوں کو کسی روز آکر پہلی بار یہ بتایا تھا کہ درندے فلاں کو کھا گئے یا فلاں کوقتل کردیاگیا یا حملہ آورشہر کے باہر فلاں مقام تک پہنچ چکے ہیں۔کون تھا جس نے پہلی بار شہر والوں کو حملہ آوروں کی لوٹ مار کا آنکھوں دیکھا حال سنایاتو کیا یہ حال سنانے والا ہی ملتان کا پہلا صحافی تھا۔پانچ ہزار سال پرانی تاریخ ،تہذیب اور تمدن کے وارث کسی شہر میں سانس لینا ، اس شہر کے ماضی کوپورے شعور کے ساتھ چشمِ تصور میں دیکھنا اور خود کو اس منظر میں محسوس کرنا کوئی آسان کام تو نہیں ۔اور جب آپ تاریخ کے کسی منظر کا حصہ بنیں ،اورجب آپ مدینةالاولیاءکے کسی منظر کا حصہ بنیں توڈھول کی تھاپ کانوں میں گونجتی ہے، کیفیت وجد کی طاری ہوتی ہے اور دھمال شروع ہو جاتا ہے۔ وہی دھمال جو بابا بلھے شاہ کے مزار پر جاری ہے ،وہی دھمال جو لعل شہباز کے مزار سے منسوب ہے ،جو مادھو لعل کے ہاں ہوتاہے اور جو ملتان میں شاہ شمس کے قدموں میں جاری ہے ۔
( جاری )