دیکھ راجُو میں نے تجھ سے کتنی بار کہا ہے یوں میرے پیچھے مت آیا کر ۔ کسی دن کاکی نے دیکھ لیا تو مجھے زندہ ہی جلا ڈالے گی۔
وہ ہاتھ میں پرساد کی تھالی لیے تیز قدموں مندر سے گھر کی طرف جا رہی تھی کہ جب راجو ہمیشہ کی طرح اس کے پیچھے ہو لیا”
فکر نا کر پریِت! تجھے تنہا تھوڑا جھونک دوں گا میں کسی آگ میں۔ میں بھی تیرے ساتھ جل مروں گا۔۔۔۔۔۔
اس نے پریِت کے تیز ہوتے قدموں کے ساتھ اپنے قدم ملاتے ہوئے جواب دیا
بس یہی ہونا باقی ہے، دنیا جینے نہیں دیتی اور تو مارنے پر تُلا ہے۔۔۔۔
پریِت نے چلتے چلتے لمحہ بھر کو مڑ کر اس کی طرف گھورتے ہوئے کہا
اچھا چل ناراض تو نہ ہو۔ دیکھ شہر سے تیرے لیے رنگ برنگی چوڑیاں لایا ہوں ۔
راجُو نے جیب سے کاغذ میں لپٹی چوڑیاں نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
تجھے میں نے کتنی بار سمجھایا ہے مت لایا کر میرے لیے ایسی رنگ برنگی چیزیں. بھلا میرا کیا واسطہ رنگوں سے۔
اس نے قدرے اداس ہوتے ہوئے کہا
اجی کیوں نہیں واسطہ تیرا رنگوں سے۔ اری تُو تو چلتی پھرتی "دھنک” ہے ۔ تیری باتوں میں تیری موہنی صورت میں اور ان کجرارے نینوں میں، مجھ سے پوچھ کیسے کیسے حسین رنگ چھپے ہیں. تُو جو ایک بار مسکرا دے تو میرا روں روں ان گہرے رنگوں میں ڈوب سا جاتا ہے۔ مگر افسوس کے بیری سماج نے تیرے سارے رنگ اس سفید ساڑھی سے ڈھک دیے ہیں۔ دیکھنا ایک دن تیری اس بےرنگ ساڑھی میں بھی ایسا شوخ رنگ بھر دوں گا جو کبھی پھیکا نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔
اس کی سحر انگیز باتوں میں ڈوبتے ہوئے پریِت نے اپنے تیز قدم دھیمے کر لئے، ۔۔۔۔ باتیں کرتے کرتے دونوں کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب پریت اپنے گھر کے دروازے تک آ پہنچی
"اری کہاں مر گئی پریتماں ، کب سے انتظار کر رہی ہوں تیرا جنم جلی”
گھر کے اندر سے دھاڑتی ہوئی کاکی کی آواز نے اسے راجو کے سحر سے آزاد کیا
اب جا بھی کھڑا کیوں ہے اندر تک آئے گا کیا؟
اس نے ایک بار پھر غراتے ہوئے راجُو کی طرف دیکھا
یہ چوڑیاں نہیں رکھے گی تو اندر تک بھی آ جاؤں گا۔۔۔۔۔۔
راجُو نے ایک بار پھر چوڑیاں اس کی طرف بڑھائیں
لے! رکھ لیں تیری چوڑیاں اب بھاگ یہاں سے۔۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے رنگ برنگی چوڑیاں اپنی سفید ساڑھی کے پلو میں چھپائیں اور اندر چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں مر گئی تھی کلموہی، سویرے سے تیرا انتظار کر رہی ہوں۔
کھٹیا پر بیٹھی کاکی حُقہ سلگاتے ہوئے اس پر برسی
بتا کر تو گئی تھی کاکی کے مندر جا رہی ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
پرساد کی تھالی کاکی کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے جواب دیا
کیا سارا آج ہی راضی کر کے آنا تھا تُو نے بھگوان کو؟ تُو مندر میں ڈیرہ بھی جما لے تب بھی تجھ پر راضی نہیں ہونے والا بھگوان، کرم جلی، ہونہہ!!!
کاکی نے پرساد ہاتھ میں لیتے ہوئے سنگدلی سے کہا تو بیچاری پریِت کا من بھر آیا
بھگوان مجھ سے راضی نہیں ہوتا تو بھلا اس میں میرا کیا دوش کاکی؟
پریت نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا
نا جی، تیرا کیا دوش بھلا؟ دوش تو میرا جو تجھ منحوس کو بیاہ کر لے لائی اور تو میرا جوان بیٹا کھا گئی چنڈالنی، اوپر سے زبان لڑاتی ہے۔ اب کھڑی کیوں ہے میرے سر پہ ۔ جا کے ناشتا بنا میرے واسطے یا اسی پرساد سے پیٹ بھرے گی میرا۔۔۔۔۔
اشکوں کے ساتھ ساتھ کاکی کی باتوں کا زہر بھی اس نے ہمیشہ کی طرح خاموشی سے اپنے اندر انڈیل لیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاکی کو سوتا پا کر اس نے راجُو کی دی چوڑیاں سرہانے تلے سے نکالیں اور دھیرے دھیرے اپنی کلائی میں چڑھانے لگی۔ اس کی مرمریں کلائی میں رنگ برنگی چوڑیاں مزید حسین لگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اری کاہے کا شور مچا رہی ہے. زندگی تو حرام کر ہی ڈالی اب میری نیند بھی حرام کرے گی کیا ؟ ۔۔۔۔۔. ۔۔
کاکی نے نیند میں کروٹ بدلتے ہوئے حسبِ معمول اسے جلی کٹی سنائی
کچھ نہیں ہے کاکی تُو سو جا۔ اب نہیں کرتی شور۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہڑبڑاہٹ میں چوڑیاں کلائی سے اتاریں تو کچھ چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی کلائی میں چبھ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. ۔. . ۔۔۔۔۔۔
بالی عمر میں بیاہی پریتماں چند روز ہی سہاگن رہی اور جلد ہی قسمت نے اس سے سہاگ کے ساتھ ساتھ تمام رنگ بھی چھین لیے۔اب اس کے بھاگ میں فقط سفید رنگ ہی بچا تھا جسے وہ ساڑھی کی صورت ہر دم اپنے تن سے لپیٹے ہوئے تھی۔۔۔۔ ہاں البتہ ایک اور رنگ بھی تھا اس کی زندگی میں "راجیش” جو اس کے بچپن کا ساتھی "راجُو” تھا۔ راجُو کے پریم کا رنگ اسقدر گہرا تھا کے جسے پریت کے لیے اپنی سفید ساڑھی میں چھپا پانا نہایت کٹھن تھا۔۔ مگر سماج اور ریتی رواج نے اس پر تمام رنگ حرام کر ڈالے تھے۔ اس لیئے اس نے راجُو کی محبت کا یہ شوخ رنگ اپنے من ہی من میں چھپا رکھا تھا۔۔۔۔ وہ خوش تھی کے جیون میں نا سہی اس کے من میں تو رنگ بھرے تھے ۔ ایسے چنچل رنگ جو اس کی دھوپ سی زندگی پر گھنی چھایا کی مانند تھے۔۔۔۔۔ راجُو کی محبت کا یہی رنگ تو تھا جس کی بدولت پریت اپنے جیون میں بھرا زہر امرِت کی طرح پیئے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں جانتے تھے کے یہ سماج انہیں کبھی ایک نہیں ہونے دے گا وہ کبھی ایک دوجے کے جیون ساتھی نہیں بن سکیں گے ۔ راجُو کبھی اس کی سفید ساڑھی کو سرخ رنگ میں نہیں رنگ پائے گا۔ مگر ان دونوں کے لیے اتنا ہی کافی تھا کے وہ جدا جدا ہو کر بھی ایک تھے، جیون ساتھی نا سہی من کے میت تو تھے ، ساڑھی نا سہی پریتماں کے نین تو راجیش نے اپنی محبت کے رنگوں سے بھر ڈالے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجُو کی چوڑیوں سے لگا گھاؤ بھی تو پریت کی کلائی میں ایک رنگ بھرے جا رہا تھا، سرخ "رنگ” جس سے کبھی اس کی مانگ بھری گئی تھی ۔ اور اب سُونی ہو جانے کے بعد کسی کو حق حاصل نہیں تھا کہ اس کی مانگ میں پھر سے رنگ بھر سکے۔۔۔۔۔۔ راجُو کو بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریِت کی آنکھوں سے بہتا کھارا پانی اس کے سرہانے رکھی کلائی سے رستے لہو میں شامل ہو کر پھیلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پھر راجُو کا خیال من میں آتے ہی کلائی سے بہتا یہ "سرخ رنگ” پونچھنے کی بجائے اس نے مسکراتے ہوئے اپنی مانگ میں بھر ڈالا۔۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ