"اٹھو بچے فجر پڑھ لو پھر بیشک دیر تک آرام کرنا”
اک مہربان آواز اور ماتھے پر رکھے شفیق ہاتھ کا لمس، اسکی فجر کو مزید با برکت بنا دیتے تھے۔۔ وہ آنکھ کھولے بغیر ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ "جی بابا” کہتی اور انکے ہاتھ چوم لیا کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وقت دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے، کچھ ہوش بھی ہے تمہیں یا آج
سارا دن یونہی لمبی تان کر پڑی رہو گی ، ”
آغازِ صبح میں ہی اپنائیت سےعاری لہجہ سن کر اسکا چہرہ مرجھا سا گیا ، مگر پھر ان شفقت بھرے ہاتھوں کی یاد اسکے سر پر تھپتھپا تے ہوئے
اسے حوصلہ دے گئی ۔۔۔
"ارے واہ آج تو میری بیٹی نے پراٹھوں پر کوئی نیا ہی نقشہ آزمایا ہے، مگر یقین جانو پراٹھے لذیذ بہت ہیں ”
انہوں نے چنگیر میں رکھے پراٹھے کی طرف دیکھا اور پھر مجھے دیکھ کر شرارت بھرے لہجے میں مسکرا دیے ۔۔
"بابا آپ بھی نا حد کرتے ہیں ، جانتی ہوں پراٹھا گول نہیں بنا مگر مذاق تو مت اڑائیں میرا”
میں نے خفا ہوتے ہوئے منہ بسور کر کہا تو انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور مجھے اپنے بدشکل پراٹھے پر مزید غصہ آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زندگی گزر گئی روٹیاں بناتے مگر اس عورت کو ایک روٹی ڈھنگ کی بنانی نہیں آئی، لے جاؤ اسکو میرے سامنے سے اور دوسری بنا کر لاؤ” اس نے چنگیر اس کی طرف دھکیلتے ہوئے بیزاری سے کہا تو برسوں بعد اپنے اس بدشکل پراٹھے اور اسکو سراہنے والے کی یاد نے اسکی آنکھیں بھگو دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیٹا کھانا تیار ہے تو لے آؤ ” اسکے کانوں تک بابا کی آواز پہنچی تو اس نے وہیں کچن سے ہی آواز بلند کی،، "ابھی کہاں بابا، بتایا تو تھا صبح کہ آپ کے لیے آج ایک خاص ڈش تیار کر رہی ہوں ابھی تھوڑا اور وقت لگے گا” ..
"کوئی بات نہیں تم آرام سے نئی ڈش پر زور آزمائی کرو، مجھے بس فریج سے کچھ فروٹس نکال دو میں فی الحال انہی سے گزارا کر لیتا ہوں”
اسنے بابا کو فروٹس دیے اور دوبارہ سے کچن میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پتا نہیں سارا دن کرتی کیا رہتی ہے یہ عورت ، وقت پر کھانا نہیں بنتا اس سے، کوئی ایک کام نہیں جو ڈھنگ سے کرتی ہوں محترمہ ،،،،، اب کھانا لاؤ گی بھی یا باہر جا کر کوئی انتظام کروں،،،،،،،،،،،”
اس غضبناک لہجے نے اسے اس قدر کنفیوز کر دیا کہ چولہے پر برق رفتاری سے کام کرتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ بری طرح جلا بیٹھی،،،، شدتِ تکلیف سے اس کے آنسو نکل آئے مگر کسی کی ناراضی کے خوف سے اس نے اپنے زخم کو نظرانداز کیا اور کام میں مصروف رہی،،،،،، پیارے بابا کا صبر اور تحمل یاد آنے پر اسے اپنے زخم میں شدید جلن محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
"کیا لکھ رہی ہے میری پیاری بیٹی؟ ” وہ اپنے بستر پر بیٹھی کچھ لکھنے میں مصروف تھی جب اسکے بابا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے خوشی سے پوچھا۔ انہیں اسکا لکھنا بیحد پسند تھا،،،،،،،،،،
” بابا ایک مضمون ذہن میں آیا بس وہی لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں” اسنے قلم روکتے ہوئے انکی طرف دیکھ کر کہا تو اسکے بابا اسکے اس شوق پر کافی مطمئن اور خوش دکھائی دیے۔۔ لکھتے لکھتے جانے کب اسے نیند آگئی ، وہ ہاتھ میں قلم پکڑے اور گود میں نوٹ بک لئے اسی حالت میں سو گئی،،،،،،،، صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ قلم اور نوٹ بک سلیقے سے سائیڈ ٹیبل پر رکھے تھے اور وہ رات بھر بابا کے اوڑھائے لحاف میں پر سکون نیند سوئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سارا دن کم ہوتا ہے کیا تمہارے پاس اپنے ان فضول کاموں کے لئے جو اب رات کو میری نیند حرام کر رہی ہو، رکھو یہ کاپی پینسل اور لائٹس آف کرو”
لکھنا اسکی عادت تھی ، دن بھر کی ان تھک جدوجہد کے بعد ، اس نے اپنی ذات کے اظہار کے لئے کاغذ قلم اٹھایا تو اسکے حاکم نے اس سے یہ حق بھی چھین لیا،،،،، وہ خاموشی سے پین اور ڈائری سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگی تو اسے برسوں پرانی ڈائری اور قلم عین اسی جگہ پر رکھے دکھائی دینے لگے، جو اسکے بابا نے اسے نیند آ جانے پر اسکے ہاتھ سے لے کر رکھے تھے،،،،، آج برسوں بعد اسکے ہاتھ میں ویسی ہی ڈائری تھی، فرق تھا تو اتنا کہ اس پرانی ڈائری میں وہ اپنی تحریر مکمل کر کے چین کی نیند سوئی تھی، اور جو اسوقت اسکے ہاتھ میں تھی اس میں درج تحریر اسکی زندگی کیطرح ادھوری تھی،،،،، ایک ادھوری زندگی اور ادھوری تحریر کیساتھ بھلا وہ مکمل نیند کیسے کر سکتی تھی؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ایک بیٹی کی زندگی میں آنے والا سب سے پہلا مرد اسکا باپ ہوتا ہے۔ جس سے وہ بیحد محبت کرتی ہے ،،، اسکی زندگی کی پہلی محبت، اور اسی شفیق محبت کے سائے میں پروان چڑھتے ہوئے وہ جن نفیس جذبوں ، گداز لہجوں اور حساس رویوں کا مشاہدہ کرتی ہے ، اپنی آئندہ زندگی میں آنے والے صنفِ مخالف کو بھی اسی معیار پر پرکھتی ہے،،،، شاید اسی لئے اپنی زندگی میں آنے والے دوسرے شخص کا اس پہلے شخص سے "تقابل” کرتی ہے ۔ اگر اسکی زندگی میں ان دو اہم شخصیات کے بیچ تقابل قریب ترین ہو تو اسکی آئندہ زندگی، گزشتہ حیات سے بڑھ کر حسین ہو جاتی ہے،،،،، اسکے برعکس مختلف رویوں ، لہجوں اور احساسات کے مابین یہ تقابل اگر شدید اختلافات کا باعث بنے تو گزشتہ زندگی ایک حسرت اور موجودہ ایک آزمائش بن کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
بہرحال! زندگی تو بیٹیوں کو گزارنی ہی پڑتی ہے کبھی اپنے
بابا کے آنگن میں ہر دم چھوٹی موٹی کوتاہیاں کرتی گڑیا کی مانند تو کبھی شوہر کے گھر پر ایک سمجھدار بیوی کی طرح جسکے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ تکیے پر سر رکھے نیند کے انتظار میں دیر تک انہی سوچوں کے حصار میں رہی”
” اے اللہ ہر بیٹی کو ایسا گھر نصیب کر کہ جسکا تقابل وہ اپنے بابا کے آنگن سے کرتے ہوئے کسی بڑے تضاد کا شکار نا ہو”
"سونے سے پہلے اسکے دل سے نکلی یہ دعا ، اسکے لبوں پر آمین بن کر اتر” آئی۔۔”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔