بابا جی! عشق آخر کیا ہے ؟
"اک گوہرِ نایاب”
عشق کرنے والوں سے اس دنیا کو اسقدر بیر کیوں ہے آخر؟
"دنیا کب بھلا ایسے شخص سے خوش ہوتی ہے جس کے پاس کوئی نایاب چیز ہو؟”
عشق اور عشقِ حقیقی کے فرق کو آپ کیسے بیان کریں گے ؟
"عشق ایک رستہ ہے اور عشقِ حقیقی منزل”
کیا یہ منزل ہر عشق کرنے والے کو میسر آتی ہے؟
"بیشک! بشرطیکہ عشق سچا ہو”
باباجی نے میرے سوال کا جواب دیتے ہی پرسکون انداز میں اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ میں تھامی تسبیح کے دانے پھر سے یھیرنے شروع کر دیے ، جو کچھ دیر پہلے مجھ سے بات کرتے وقت روک دیے تھے،،،،،،
"عشق سچا ہے اس بات کی کھوج کیسے لگائی جائے؟”
میں نے ایک اور سوال کیا،،،،،
"سچے عشق کو کھوجنا نہیں پڑتا بلکہ سچا عشق ایک سچے انسان کو خود کھوج لیتا ہے”
باباجی نے بدستور آنکھیں میچے جواب دیا…
پھر یہ عشق رسوا کیوں کرتا ہے؟
اس سوال کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں نمی اتر آئی….
اس بار بابا جی نے اپنی بند آنکھیں کھولتے ہوئے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد گویا ہوئے ….
"میں عشق کی بات کر رہا ہوں بچے! اور تم عشق کے محض گمان کی…. جس کیفیت پر تمہیں عشق کا گمان ہو رہا ہے اس میں سرکشی ہے، خواہشِ حصول ہے، اضطراب ہے ،یہ کیفیت عارضی ہےاسکا انجام فنا ہے، اور بےشک اس میں رسوائی ہے…. مگر عشق سرکشی نہیں ، سر خم کرنا سکھاتا ہے وہ بھی سجدوں کی صورت، عشق ادابء زندگی اور ادابء بندگی سے آشنا کرواتا ہے، عشق حصول کی چاہ سے بےنیاز ہے، عشق میں اضطراب نہیں سکون ہی سکون ہے، عشق فنا نہیں عشق بقا ہے، بیشک سچا عشق انسان کو حقیقی معنوں میں سنوار دیتا ہے …. چاہت کے اس سفر میں جب آہستہ آہستہ عشق کے تقاضے بدلنے لگتے ہیں تب تمہارا محبوب بھی بدل جاتا ہے ، بیشک ایک لازوال اور حقیقی عشق کے تقاضے پورے کرنا حقیقی محبوب کے بس کی ہی بات ہے ”
اپنی بات مکمل کرنے پر بابا جی نے تسبیح کے دانوں کا منقطع ہوا سلسلہ پھر سے شروع کیا….
میں خاموشی سے بیٹھی انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی….
"مگر اس محبوب کا کیا جو حصولِ منزل کے سفر میں بطور رستہ ساتھ ساتھ چلتا آیا ہو؟”
میرے اس سوال کیساتھ ہی بےبسی آنسوؤں کی صورت آنکھوں میں امڈ آئی۔
باباجی نے میری کیفیت اور اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے اپنی شفیق نگاہیں میری طرف اٹھائیں اور نہایت گداز لہجے میں ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ گویا ہوئے….
"راستہ جتنا بھی دلکش ہو، بلآخر منزل تک پہنچنے کا اک ذریعہ ہوتا ہے، حصولِ منزل کے بعد واپس راستے کی طرف لوٹا نہیں جاتا، قدموں کا گامزن رہنا ہی رستوں کا مقدر ہے نا کے "پڑاؤ ”
غم نا کر بچے! جس روز اپنے اندر سے "گوہرِ نایاب ” کھوج نکالے گی اس روز تیرے یہ بےمول آنسو بھی موتیوں کی صورت اختیار کر لیں گے،۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
بابا جی نے اپنی بات کے اختتام پر میرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور ایک بار پھر سے آنکھیں میچے مصروفِ تسبیح ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ان سے اجازت چاہی،،،،،،،
باباجی کے حضور پیش ہوتے وقت میرے دل و دماغ میں مختلف سوچوں اور الجھنوں کا ایک تلاطم برپا تھا…. مگر میں وہاں سے راہِ الفت پر چلنے کی استقامت اور من میں "گوہرِ نایاب” کی چاہ لئے واپس لوٹ آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ