ماضی کی مہک بار فضاﺅں سے پُرکیف مناظر سے جھلملاتی جھلک دیکھوں تو مریم ہاسٹل کے کورویڈور میں سرخ گھاگرے سیاہ چولی میں ملبوس…. ہر ا آنچل لہراتی…. پھکی پراندے سے اُٹھکیلیاں کرتی نکیاں نکیاں ٹوراں ٹردی۔ نسرین رحمن ذرا پس منظر میں یہ گانا بھی شامل کر لیجئے۔
جتی تیڈی چیک مچیکاں وچ تلے دی دھار وے
نکیاں نکیاں ٹوراں ٹردی ہاں کلیجے پار وے
اب ننھی منھی سی نسرین بھاری بھرکم مدبر اور باوقار سی مسز نسرین اشفاق مرزا…. دوستوں میں ”نسرین دبئی والی کے نام سے ہر دلعزیز ہے۔ لہٰذا میں نے بھی اسے گڈ مارننگ کہنے کیلئے گانا تبدیل کرلیا ہے۔
اُونچی والی ہیل پہن کہ ڈانس بسنتی کہ۔
میرے ابّا۔ چونگی نمبر 505 روڈ پہ دھول اُڑاتی ملتان کی طرف بھاگتی بس میں بٹھانے آئے تو کہا ”ایک دوسرے کا خیال رکھنا…. بس پھر میں نے اور نسرین نے ایسی چوکیداری کی مجال ہے کبھی چلتی بس سے ایک دوسرے کو ہاتھ باہر نکالنے دیا ہو۔ خواہ وہ چونگی نمبر 6 کا رُونق بھرا بازار ہو یا وہاڑی روڈ پہ ماچھی وال کا بیاباں سا سٹاپ۔ ہم دونوں میں غیر محسوس سا بے حد مضبوط تعلق تھا۔ نہ گلہ، شکوہ، جھوٹ، فریب، کنجوسی اور نہ ہی دنیا داری…. بس معاونت ہی معانت! سچل اور کھرے رشتے کی وجہ جامع تھی۔ ہماری متوسط سے تعلق داری اور ایک ہی شہر بورےوالا سے راہداری! متوسط طبقے سے کی حدود و قیود کی لیپا پوتی ”احتیاط“ کے مٹی گارے سے کی جاتی ہے۔ امیر طبقہ اظہار رائے میں نڈر۔ غریب دلیر اور متوسط کھوچل ہی کھوچل…. نسرین اپنے ٹھہراﺅ اور میں اپنے اضطرار کیساتھ درمیانے طبقے کی سسکیاں، ہچکیاں اور تھپکیاں پلو میں باندھے موقع محل، حالات اور سماجی دباﺅ کے جھوٹے سچے ہچکولوں میں کمپرومائز ہی کمپرومائز۔ ہمارے خیال انداز رویے ضرورتیں سب یکساں ہی یکساں۔ حتی کہ متوسط طبقے کی لڑکیاں تو خواب بھی ایک جیسے ہی دیکھت ہیں۔ خوفناک اور ڈراﺅنے انہیں ادراک بھی نہیں ہوتا کہ لاشعور میں سماج کے انگلی اُٹھانے کے ڈر سے خوفزدہ ہوکر اپنی ہی مٹھیاں بھینچ لیتی ہیں۔ طاقت پرواز…. عقاب کی سی مگر رویہ کبوتر کا اپنالیتی ہیں!
آکھ سو نی مائے اینوں
روئے بل چتھ کے نی
جگ کیتے سن نہ لووے
کمال یہ ہوا کہ نسرین نے اپنی فطرت، تربیت اور تعلیم سے ان معروف ”سماجی اداﺅں“ کی کیمیا گری سیکھ لی۔ جو زندگی کی نزاکتوں، رکاوٹوں اور خواہشوں کو بہت عمدگی سے تحلیل کرتی ہیں کہ مجال ہے کوئی جز دوسرے کی ترکیب پر اثر انداز ہوجائے۔
نسرین کا گھرانہ علمی گھرانہ ہے ”دبستان رحمانیہ“ میں اردو ادب کے پرستار ہی پرستار ہیں۔ کوئی اردو کا ڈاکٹر ہے تو کوئی ایم بی بی ایس کا۔ تو کوئی اردو کا استاد ہے تو کوئی اردو ادب کاطلبگار۔ باقی افراد خانہ بھی بطرزِ وراثت ایم اے اردو کرتے ہی چلے جارہے ہیں اور ہماری نسرین تو محبتوں کی ڈاکٹر ہے۔ جو دوستوں عزیزوں کی اُلجھنوں، سلجھنوں کی تشویش و تفتیش اور بعد ازاں تشخیص میں بھی طاق ہوچکی ہے۔
میں بچپن میں نسرین رحمن کے گھر کھیلنے جاتی تو اس کے گھر کی دیواروں الماریوں میں ”نمائشی آلات“ کی بجائے۔ کاغذ قلم، دوات، تختی سلیٹ کتابیں اور گاچنی کی ڈھیری ماں کے ہاتھ کے قرینے سے سجی دکھائی دیتیں۔ ہم قالین پر بیٹھ کے کھاتے پیتے کھیلتے اور پڑھائیاں کرتے۔ میں نسرین کی لکھائی سے ہمیشہ مرعوب رہی۔ مگر اتنی تند ہی سے مشق نہ کرسکی جو اس کے حسن کمال کی متقاضی تھی۔
دوستو! ہم سب کے والدین سچی مچی صابر شاکر اور سادہ دل تھے۔ ان کے شکر میں صبر کی مٹھاس تھی۔ اُن کی تو بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی تاب ناک ہیں۔ بحیثیت والدین ہمارے صبر میں ناشکری کی واضح چبھن محسوس ہوتی ہے۔ نسرین کی امی جان کے تشکر میں قناعت پسندی کی خوشگواری ماتھے کے جھومر میں چمکتے نگینے کی طرح تھی۔ ہمیشہ پیش قدمی کی ترغیب دیتی۔ والدین کی حوصلہ افزائی اور سچی لگن کے ثمرات ہیں کہ آج اس گھرانے کی پہچان۔ علم و کتاب اور حسن اخلاق ہے۔
کوئی بھی خاص دن ہو یا تہواریوم آزادی ہو یا عید الفطر…. تقریب کا حق ادائیگی بے حد پسند کرتی ہے۔ ہاسٹل میں نسرین اپنی گڑیا روبینہ بابر کے گڈے سے شادی کی تو آناً فاناً سارا ہوسٹل لڑکی والے اور لڑکے والے دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ وہ دھماچوکڑی مچی کہ فارمیسی کی میڈم کلثوم صاحبہ کو وارننگ دینے کیلئے آنا پڑا۔ مگر لڑکیوں کے ڈانس اور گانوں کے مظاہروں کی سحر انگریزی سے خود کو بچانہ سکیں …. اور فرمایا زندگی کے نمکین ذائقوں میں اردو والیوں کی رونق سویٹ ڈش کی طرح ہے لہٰذا رات کے کھانے میں زردہ چاول بنوا دیئے! یہ الگ بات کہ روبینہ بابر کے الماری کے خانے کو بیڈ روم کے طور سجائے کمرے سے گڈی بمعہ گڈے کو مصباح اور زاہدہ نے ذلیخا صباءکی مخبری معاونت سے ”اغوا“کرلیا تھا۔
زندگی میں نیکی بدی سچ جھوٹ فریب کی گہا گہمی رہتی ہے سوشل میڈیا پہ اظہار رائے ٹھونسنے کی یکطرفہ سہولت کے باعث سارا مدّعا زمانے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسروں کو ظالم اور خود کو مظلوم ثابت کیا جاتا ہے جبکہ ہم کسی کیلئے زمانہ ہیں تو کوئی ہمارے لیے…. مالک کون و مکاں کی ایک عظیم تخلیق ”انسان“ کے طور پر نیکیاں اور خوبیاں اجنبی نہیں۔ کسی بھی خوبی کو استقلال کیساتھ اپنانے سے ثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نسرین نے بھی اخلاص کو پورے استحکام کیساتھ اپنا کر اپنی فطرت کو گلابی گلابی سا بنالیا ہے۔
نسرین کی دوستی میں پیار کے سات رنگوں کی دھنک اسے ست رنگی بنادیتی ہے۔ کبھی خود اپنے نام معنی کی طرح سفید گلاب کی طرح مہکتی ہے تو کبھی پھولوں کی کیاریوں سے پھیلتی تازگی اور مہک کی طرح پیار اور دعائیں تقسیم کرتی ہے۔ مہربان روّیہ اُسے باوقار بنادیتا ہے۔ وہ عزیزوں اور دوستوں کی فکر مندی میں ایسے ”مقام محمود پر براجمان ہوچکی ہے کہ جیسے اشارہ ہوجاتا ہے کون کیوں پریشان ہے لہٰذا ”مقام سعود“ سے ہی درد مند غیر ملکی پاکستانیوں کی طرح کرنسی کے پیچ و خم شمار کرتی رہتی ہے۔ اشفاق مرزا صاحب اور نسرین رحمن کے جوڑے کی ذہنی و قلبی یکجائی نے بہت سارے گھرانوں کی زندگی کو زندگانی بناڈالا ہے۔ ان کی پرتکلف دعوتوں میں پرخلوص میزبانی کے چرچے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لیکر برج خلیفہ کے قرب و جوار تک پھیلے ہوئے ہیں۔
نسرین رحمن پاکستان بلکہ دنیا کے ہر گروہ کے ”سرغنہ“ کی طرح دبئی میں مقیم ہے۔ زکریا یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی طالبات ہوں یا سکول کالج کی بچھڑی طالبات…. وائس گروپس کے علاوہ 15-16 افراد خانہ پر مشتمل اشفاق ولا کی بھی حقیقی ہے۔ ”سرغنہ“ ہے۔
خود اعتمادی اسے وراثت میں ملی۔ جبکہ خود پسندی اسے اشفاق بھائی کی آنکھوں سے نچھاور ہوتی محبت کی عطا کردہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی کسی دوست کو شوہر کی طرف سے تابع فرمانی کے احساس تفاخر کی سرشاری سے خوش و خرم دیکھ کر مغرور سی خوشی ملتی ہے۔ میری دعا ہے میری یہ حقیقی خوشی اور نسرین کی سرشاری سلامت رہے!
فیس بک کمینٹ