نام کا عکس شخصیت پر کس طرح منعکس ہوتا ہے ملاحظہ کیجئے!
فرحت مشتاق…. مفرح…. دیدار کا مشتاق…. محبت کے جھرنے کی طرح رواں دواں…. عشق لطیف کے سمندر میں گھل مل جاتا ہے۔ اپنے مزاج کی گرمجوشی سے اجنبیت کے فاصلے اپنائیت میں طے کرلینے کی مشتاق بھی اور۔ مشتاق بھی…. رشتوں کو نبھانے نکھارنے اور سنوارنے کے وصف سے مالا مال ہے۔ بھرم باز مسکراہٹ سے لبریز آنکھوں اور شرارت سے سرشار لہجے والی فرحت کی شخصیت میں آزاد نظم جیسا ردھم اور غزل جیسی تنظیم ہے۔
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
فرحت زندگی گزارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ زندگی میں سمندر سی گہرائی اور گیرائی سے ایک جل پری کی طرح غوطہ لگاکر کامن سینس کے جواہر مٹھی میں لیے نمودار ہوتی ہے۔ گویا فرحت سب کیلئے سہل ممتنع ہے…. کیونکہ کامن سینس کا حامل انسان اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی بھی آسان بنادیتا ہے۔ یہی دانشمندانہ طرزِعمل فرحت کو لطیف صاحب کا گرو …. اور فرحت کو لطیف اعجاز صاحب کا گرویدہ بناگیا…. جبھی تو…. ”سرجھکائے آنکھوں میں ادب کوٹ کوٹ کر بھرے دست بدست پھول ہاتھ میں لئے ’مودب“ کھڑے رہتے ہیں کہ کب فرحت کی جنبش ابرو متحرک ہو اور وہ کب قربان ہو…. ہو…. جائیں۔
زکریا یونیورسٹی شعبہ اُردو کی ملتان بنجمن سسٹرز…. برق رفتار سی صباحت۔ مشتاق بارش کی مدہم پھوار سی بشریٰ مشتاق…. بریک کی گھنٹی بجتے ہی ذن سے ہماری کلاس کے دروازے پر حاضر و ناظر ہوجاتیں…. اور فرحت سے گھر واپسی بس کی ٹائمنگ طے کرنے کیلئے یوں مکالمہ کرتیں جیسے…. بڑی عید پہ قصائی کی چھریاں چلتی ہوں یا…. چھوٹی عید پر درزی کی قینچیاں…. شعبہ اُردو میں کوئی بھی تقریب ہوتی ہم فرحت کو ہوسٹل میں قیام کیلئے روک لیتے کیونکہ ہماری کوئی بھی ثقافتی کارروائی فرحت کی شرکت کے بنانامکمل رہتی! میک اپ کی شوقین ایک ماہر مشاطہ محض ایک ہی پنسل سے ہماری آنکھوں و بھنووں اور ہونٹوں کی سرحدوں پہ ایسی ”لکیر سازی“ کرتی کہ غیر محسوس انداز میں Negative Develope…ہوجاتا۔ نتیجتاً ہمارے کلاس فیلو بھی ریمارکس دیتے۔ بدلے بدلے سے یہ سرکار نظر آتے ہیں۔ تو پھر جناب رات گئے﴿ اُردو والیوں کے مبیّنہ درجہ اوّل کے نکہت بھرے عالیہ ثقافتی مظاہروں کے بعد فرحت سے جھٹ سے اپنے ڈوپٹے کو اڑس کر ساڑھی کی شکل دے کر ”امراﺅ جانِ ادا“ اور میں انگلیوں سے ڈوپٹے کو بل دے کر گھاگھرا بناکر ”والدہ امراﺅ جانِ ادا“ کا روپ دھار کر۔
ان آنکھوں کی مستی کے پروانے ہزاروں ہیں۔
جیسے گانے کی غارت گری کو خارش زدہ مجرے کی معراج تک پہنچا دیتیں۔ کمرہ پرسن زلیخا صباءکیساتھ مصباح کیانی کسی مست تماشائی کی طرح کہنی کے بل قالین پہ نیم در راز…. دانتوں میں ماچس کی تیلی دبائے…. زاہدہ بشیر کو جعلی نوٹ نچھاور کرنے پہ دادِ تحسین پیش کرتی۔ اُف اُف…. تف تف پکارتی فرح محمود پہلو بدلتی رہتی…. فریحہ ناز پنسل سے سوٹے لگاتی ہمیں تلاش کرتی آپہنچتی…. تو پھولدار شاخ کی طرح لچکتی نسرین رحمن اورگڑیا سی رُوبینہ بابر اُسے دبوچ لیتیں۔ آخر ہم تھک ہار کر اپنے آلاتِ موسیقی ٹب چمچے اور سوس پین سمیت ٹی وی لاﺅنج میں ہی سوجاتے۔ صبح ہمارے گردو پیش نیڈو کی چائے والے خالی کپ اوندھے منہ پڑے ہوتے۔ اس صورتحال پہ صفائی والی ماسی کی ہوسٹل شگاف آواز آتی۔
اگے نئیں سی مان
اُتوں ٹپ چڑی اسمان
اپنی شادی کیساتھ ہی ہفتہ بھر کی لاہور بازی کے بعد میری طلب اس شیخ حاجی کی طرح ”بے تاب“ تھی جو جدہ ایئر پورٹ وطن واپسی پہ کہتا ہے ”اللہ تیرا شکر پر داتا داتا ہی ہے“ کیا نئی نویلی دُلہن اور کیا اس کی فرمائش…. امجد مرزا کو چیچہ وطنی بائی پاس کرتے ہوئے لاہور سے سیدھا ملتان آنا ہی پڑا۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر ہم نقشبند کالونی فرحت کے گھر پہنچے۔ گھر والوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ فرحت کی امی میری مہک بار مسکراہٹوں کو دیکھ کر مستقبل میں متوقع درگت کیلئے فکر مند ماﺅں کی طرح دعا گیر ہوئیں….
فرحت کی امی نہایت حسین خاتون اور مستحکم مزاج کی مالکہ تھیں ان کے حسن کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا تھا بلکہ ہلکے ہلکے چھنا کے مارتا ہی رہتا تھا۔
فرحت کا گھرانہ علم و ادب…. اخلاق و اخلاص اور شائستگی بھری بے تکلفی کا حامل گھرانہ تھا…. اور فرحت کے روشن خیال ابو مشتاق احمد شیداسوچ اور تخلیل میں غلام عباس کے افسانوں کی تہذیبی تمثیل تھے وہ ہم سب دوستوں کو بھی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے رہتے!
مشتاق احمد شیدا صاحب قراة العین کے حسن کے اسلوب اور عینی کی لکھت پڑھت کے اسلوب کے حسن و جمال کے عینی شاہد گواہ کی طرح پرمست اور پرجوش تھے۔ فرحت کے ابو اپنی بیٹیوں کو ”بھاگ میکا بھاگ“ جیسی ہلہ شیری دیتے۔ جبکہ امی تیز دوڑتے سمے ٹھوکرسے بچ جانے کیلئے دعائیں اور صدائیں بلند کرتی رہتی! آسمانوں پہ پرواز کیلئے مچلتی صباءکیلئے اری صبا …. اری صباءجیسے الفاظ اُن کے لبوں پر سجے رہتے۔ آرائشی مجسمے جیسی ”مجسم آنکھوں“ والی شمسہ مشتاق بھی گڑیا گھر کی گڑیا دکھائی دیتی۔ مفاہمت آمیز، سادہ اطوار والی فرحت اب امریکی چشم تے UK والی بولی اے…. جیسی Koko Reena Girl دکھائی دیتی ہے! فرحت پنجابی ہونے کے باوجود لائی لگ بالکل بھی نہیں!
انکل مشتاق اور امجد مرزا کی نشست گمبھیر حدوں کو چھونے لگی…. دو وکیل اپنے مشترک محبوب وکیل قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے اپنی عقیدتوں کو ایک راگ کی طرح لفظوں اور جذبوں کی ستار پہ الاپنے لگے۔ دو صاحب طرز سگریٹ نوش…. سگریٹ کے کش اور جملوں کے تبادلے سے واری کے بخار کی سی دھیمی تپش سافسوں کمرے میں طاری ہونے لگا۔ واپسی پہ امجد کہنے لگے! ثمینہ تمہارے ملتان میں اب میرے بھی ایک محترم دوست رہتے ہیں!
ہم سب زندگی میں ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم پہ رنجیدہ جیسی دنیا داری میں ہی ”جتے“ رہتے ہیں۔ سچے اور پکے دوست ہی حقوق و فرائض کے ”کوٹ لکھپت“ میں محصور اپنے ساتھی سے ایک ”ملاقاتی“ کی طرح ملاقات کرتے ہیں۔ بہر حال یقین مانئے…. موسم سہانا ہوجاتا ہے۔ اب عناصر میں بے اعتدالی کی طرف مائل زندگی میں جواں تر رہنے اور اپنی ذات سے ملاقات کیلئے ”اوئے یار گل سن“ جیسی دستکوں سے مجھے آشنائی کا سفر روشنائی کی روشن راہوں کی طرف سرکتا دکھائی دے رہا ہے!
فیس بک کمینٹ