پانی پانی کرتی پاکستان پیاسی اور نراسی قوم ۔۔۔ امیر طبقہ منرل واٹر کی مارکیٹ میں دستیابی کے باعث آسودہ حال ہے۔ متوسط طبقہ بھی بیماریوں سے بچاﺅ کیلئے حسب توفیق مارکیٹ سے اور حسب ضرورت پانی ” شہباز شریف“ کے نام کی فلیکس کے سائے تلے نصب فلٹر پلانٹ کے کنویں سے بعد از مشقت حاصل کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی رگ رگ میں اُترا غریب طبقہ صاف پانی اور گندے پانی کے خطرے سے بے نیاز ”جہاں ہے“ ”جیسے ہے“ کی بنیاد پر پیاس بجھاتا ہے۔ پاکستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ”آبی تاریخ“ کا باب تاریک ہے…. جس میں انڈیا کے آبی ڈاکے اورپاکستانی سیاہ نصیب مددگارآرٹیکل خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں جبکہ سمندر کنارے آباد شہر کی دھرتی بھی پیاسی ہے۔ جہاں درختوں اور سبزے کی کمی اپنے اثرات چھوڑ چکی ہے۔ زمین پانی درخت اور خوشحالی کا گہرا ربط ہے۔ لیکن ”سیاہ ست دان“ تو اپنی ذات کی پیاس کے ہاتھوں بلک رہے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ہاتھ میں ووٹ کا کشکول پکڑے تو ان کی پیاس کا عالم ۔۔۔ پاکستان کی سرزمین کے ”راوی‘ جہلم‘ سندھ‘ چناب…. اپنے ساز اپنے مضراب. ۔۔ جیسے بھرپور روانیوں اور سیرابیوں والے دریا اب ندی نالوں میں بدلتے جارہے ہیں۔ سندھ جیسا شہر دل دریا اور ست دریاﺅں کے دلربا نام والی سرزمین پر کاغذی شیروں کی کاغذی ڈھاڑنے پھوٹتے سوتوں اور پھلانگتے چشموں کی رفتار کو بھی مدھم کردیا ہے۔ پانی اور انسان کی سنگت جیون اور موت کی سنگت ہے۔ پانیوں کے وچھوڑے سے ہر بالیاں روٹھ جاتی ہیں۔ زمین سوکھ جاتی ہے۔ہوائیں رستہ بھول جاتی ہیں آبی ماہرین کی تنبیہ تحریری صورت میں بھی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور پانی کے وسائل کے ذرائع کے تحفظ کیلئے تجاویز بھی ۔۔ کالا باغ ڈیم تو رضیہ کی طرح غنڈوں میں پھنس کر رہ گیا ۔۔ درختوں کی کٹائی اور لکڑی کے ذخائر جیسے فطری تحائف خداوندی کے محافظ کون میں اور لٹیرے کون؟ تدارک کون کرے؟
انڈیا کے پاکستان کے پانی کے ”حملوں“اور آبی ذخائر کے مثبت استعمال پر بھی ہمارے سیاست دان پانی پانی نہیں ہوتے۔ آزاد کشمیر میں ”کشن ڈیم“ کے چالو ہونے سے پاکستان پہ اثرات کس قدر خوفناک ہونگے ۔۔ اس کا اندازہ قیاس آرائی سے بھی زیادہ گہرا ثابت ہوگا ۔۔ معاشرتی ادارے ایک دوسرے سے زنجیر کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔ گروہ کے اندر گروہ اور اداروں کے اندر ادارے زیادہ مضبوط ہیں۔ مثال کے طور پر صاف پانی نہیں ہوگا تو قوم بیمار کیسے ہوگی؟ بیمار نہ ہونگے تو ہسپتال کیسے بنیں گے؟ تعمیر ساز ادارے نئی عمارتوں کی تعمیر کیونکر کرسکیں گے سرکاری زمین یہ ذاتی پلازوں کی پنیری کیسے لگی ۔۔۔
ہسپتال نہ ہونگے تو پھر جعلی اور اصلی ڈاکٹرز اور ادویات کی درآمد برآمد ممکن نہیں رہے گی۔
ڈاکٹرز نہ ہونگے تو اکیڈیمیز کیسے رواں دواں ہونگی؟
سر د ھڑ کی بازی لگاتے والدین کے بچے کہاں تعلیم حاصل کریں گے؟ اکیڈیمیز نہ ہونگی تو ”شعبہ امتحانات“ کی پرواز ”شعبہ تعلیم“ سے بھی اُونچی اُڑان کیسے بھرے گی!ترقی کی یہی ”کیمیا گری“ تقریباً ہر ادارے کا نصب العین ہے۔ معاملہ ”فراہمی آب“ کا ہو یا ”نکاسی آب“ کا…. اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ دن بدن …. دریا ”خالی“ اور ہلکی بارش کی آمد سے گلی کوچے ”سیراب“ ہونے لگ جاتے ہیں…. تعفن اور بدبو سے زندگی دوزخ بنی بیٹھی ہے!
کبھی کبھار کسی غیر ملکی صحافی کی ”تخلیقی کرشمہ سازی کی طالب نگاہ کرم ”تھر“ کی پیاسی ریت یہ سسکتے اشرف المخلوق پاکستانی بچے کی تصاویر کے ذریعے وقتی تھر تھراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔کسی بھی حکومت نے تھر یا چولستان کی نگہہ داری نہیں کی۔ ایک وسیع و عریض صحرائی پٹی جو پنجاب میں چولستان، سندھ میں تھر اور انڈیا میں راجھستان کے نام کی جغرافیائی حد بندی اختیار کرلیتی ہے۔ ان کیلئے تھر ایک غیر مرئی جزیرہ ہے ۔۔ جہاں کے لوگ اس دھرتی کے مکین ہوتے ہوئے بھی ”مریخ“ میں ”پانی کی تلاش“ کی تصویر ہیں۔ طبقاتی تقسیم سے بھی نچلے درجے یہ ممتکن لوگ کسی بھی گنتی کے شمار میں نہیں ۔۔ حتیٰ کہ مردم شماری میں نہیں ۔۔۔ وہ زندگی کی شناختی کارڈ کی علامت اور ووٹ کے استعمال کیا جانے؟ وہ تو زندگی کی گنتی کے مقروض ہیں! ان کا حق خود ارادیت ان کی بھوک اور پیاس ہے …. خدا کبھی کبھار قوموں کو تقدیر اور تدبیر کے وسیلوں سے ”غفلت“ برتنے کے باعث ”Unfriend“ کردیتا ہے۔
اپنے وطن کو بچائیں ۔۔ گھروں میں برتنوں اور کچن کی صفائی اور گاڑی کی دھلائی کیلئے بے جا پانی استعمال نہ کریں…. پانی کا نل بند کرنا سیکھیں ۔۔ ورنہ کھلے نل سے پانی کی جگہ ہوا کا اخراج ہمارا مقدر بن جائے گا ۔۔۔ اپنی مقدس سرزمین کو بنجر ہونے سے بچائیں ۔۔ شادابی اپنائیں…. نگران حکومت کی زیر نگرانی ”لاﺅنج“ ہونے والی نئی حکومت کو ووٹ ”پانی کیساتھ“ مشروط کردیں…. نئی حکومت ایسی حکمت عملی اپنائے ۔۔ صاف پانی کی مفت فراہمی کو ممکن بنائے ورنہ مستقبل قریب میں ساری قوم ”العطش“ العطش پکارے گی!
فیس بک کمینٹ