اسلام کے نام پر بنے ملک کے مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ایک پیدائشی جدی پشتی مسلمان ہونے کے باوجود مجھے گاہے بگاہے اپنے ایمان کا جائزہ لینا پڑتا ہے ۔میرا ایمان کس فقہے، کس فرقے اور کس گروہ کے تشریح کردہ ایمان کے مطابق ہے ؟دین اسلام کے بنیادی عقائد میری گھٹی میں شامل ہیں اور رگ رگ میں بسے ہوئے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت پر میراغیر متزلزل ایمان ہے۔الحمدللہ۔ اہل بیت اطہر سے محبت اور اصحابہ کرام سے عقیدت میرے ایمان کا حصہ ہیں۔ اسلام کی بہت زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی عنائت ہے۔مگرکچھ لکھنے بیٹھوں تو تحریر کو بار بار پڑھتا ہوں کہ کہیں اس میں کوئی ایساجملہ یا لفظ تو غیر دانستگی میں استعمال نہیں کر بیٹھا جو مختلف اطراف سے تشریح کردہ رائج الوقت ایمان کی تشریح سے کسی طور بھی مختلف ہو اور کہیں سے بھی مجھے اپنے ایمان کی تجدید کا حکم آجائے۔ ( متصادم ہونے کا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا)۔
کم و بیش تین دہائیوں تک ملک جہادی اسلام کا پیروکار بنا رہا۔حکومتی اور فوجی سرپرستی میں جہادی اسلام کی ترویج پر زور دیا جاتا رہا اور پھر حکومتی اور فوجی سرپرستی ہی میں اسلام کی یہ تشریح ، دہشت گردی کی اصطلاح میں بدل دی گئی۔اس دوران ہزاروں ہم وطن اپنی جاں سے گزر گئے۔ لاکھوں زخمی اور اپاہج ہو گئے۔ اس گروہ کا زور ٹوٹا تو ایک اور گروہ سامنے آگیا۔ یہ گروہ حرمت رسولﷺ کے تحفظ کا نعرہ لے کر اٹھا ۔ اس میں کوئی شک یا دوسری رائے نہیں کہ کلمہ گو مسلمانوں کے لیئے حرمت رسولﷺ کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس گروہ کا مقصد صرف حرمت رسول ﷺ کا تحفظ ہے؟ کیونکہ رسول پاک ﷺ سے محبت کی اولین شرط اور تقاضہ تو آپﷺ کی سنت اور آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اس گروہ نے چند ماہ پہلے فیض آباد چوک پر قبضہ کر کے حکومتی رٹ کو چیلنج کیاتھا ۔حکومتی مشینری مفلوج ہو گئی تھی ۔بلآخر فوج درمیان میں آئی اور کمال یہ ہوا کہ اس گروہ اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے میں فوج نے کلیدی کردار ادا کر کے یہ تاثر پیدا کر دیا کہ اس گروہ کو مقتدر حلقوں کی اشیرباد حاصل ہے۔ کیونکہ اس معاہدے پر اعلیٰ فوجی افسران نے بھی دستخط کیئے تھے ۔اس بار بھی حرمت رسولﷺ کی حفاظت کے نام پر اس گروہ نے جو کچھ کیا ہے اسے عوام کی بھاری اکثریت نے مسترد کر دیا ۔اس لیئے کہ حرمت رسولﷺ کے تحفظ کے نام پر کیا جانے والا احتجاج اور اس میں کی جانے والی شرپسندانہ کاروائیاں پیارے نبیﷺ کی تعلیمات اور سنت مبارکہ کے بالکل برعکس تھیں۔
میں اس بات کو یہیں پر ختم کرتے ہوئے حکومت اور اس گروہ کے درمیان طے پا نے والے تحریری معاہدے کی طرف آتا ہوں۔وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مظاہرین ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کریں اور ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔لیکن وزیر اعظم کا یہ بیان محض ایک بیان ہی رہا اور مظاہرین کھل کھلا کر ریاست کی رٹ نہ صرف چیلنج کرتے رہے بلکہ حکومت کو مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کر دیا۔بڑا سادہ سا اصول ہے کہ جب حکومت کسی بھی گروہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے اس گروہ کی اہمیت اور حقیقت تسلیم کر لی ہے۔ فیض آباد چوک سے قبضہ چھڑانے کے لیئے فوج کی مداخلت سے ہونے والے معاہدے نے اس گروہ کو یہ قوت بخشی کہ اس بار وہ زیادہ طاقت کے ساتھ حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے لیئے میدان میں اترے۔اور انہوں نے ہر قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تین دن تک وطن عزیز کی سڑکوں پر اپنی من مانی کی اور اپنا راج قائم رکھا۔ایسے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں کہاں تھیں؟ جبکہ وزیر اعظم قوم کو حکومتی رٹ قائم رکھنے کی نوید سنا چکے تھے۔معاہدے کی شرائط سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر آچکی ہیں۔اس میں حکومت کی جیت ہوئی یا سبکی؟ معاہدے کی شق نمبرتین میں احتجاج کے دوران مرنے والوں کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ مرنے والے شہادت کے رتبے میں آتے ہیں؟ اگر عوام میں سے لوگ مرے ہیں تو وہ مقتول تھے، انہیں شہید کے درجے پر فائز کر کے ان کے نا حق قتل پر مٹی ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ان کے قاتلوں سے حساب لیا جائے اور پھر وہ مقررین اور قائدین جنہوں نے مقتدر اداروں کے سربراہان ۔ عدالت عظمیٰ کے قابل احترام ججز اور وزیر اعظم پاکستان کے خلاف انتہائی غلیظ نفرت انگیز اور سخت زبان استعمال کی اور ان کے خلاف فتوے جاری کیئے ۔ان کے ساتھ ریاست کیا سلوک کرے گی؟ معاہدہ اس بارے میں خاموش ہے۔ کیاپاکستان کے عوام اب یہ حقیقت تسلیم کر کے صبر و شکر سے بیٹھ جائیں کہ کوئی بھی گروہ یا وزیر اعظم کے بقول چھوٹا سا طبقہ نہ صرف حکومتی رٹ کو چیلنج کر سکتا ہے بلکہ حکومت کو مفلوج کر کے اپنی حیثیت منوا سکتا ہے؟۔۔ اور۔لازم ہے کہ مجھ جیسے کمزور پاکستانی مسلمان اپنے ایمان کا جائزہ لیتے رہا کریں کہ آ یا ان کا ایمان کسی طاقت ور گروہ کے تشریح کردہ ایمان کے مطابق ہے کہ نہیں۔۔ مذاکرات میں حکومت کی یہ جیت وزیر اعظم کو مبارک ہو۔
فیس بک کمینٹ