یہ بات کوئی پندرہ برس پرانی ہے کہ مجھے اہلیہ نے کہا کہ ہمارے چھوٹے بیٹے کی اُردو کی لکھائی بہت بری ہے۔ اُس کے لیے کسی اچھے اُستاد کا انتظام کریں یا اُسے کسی خطاطی کی اکیڈمی میں بھجوائیں تاکہ اُردو کے ساتھ ساتھ اُس کی انگریزی کی لکھائی بھی خوشخط ہو سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مَیں ہر ہفتے پروفیسر لطیف الزماں خاں صاحب کے پاس دوپہر کا کھانا کھایا کرتا تھا۔ تو مَیں نے اپنے اس مسئلے کا تذکرہ اُن سے کیا تو کہنے لگے آپ اپنے بیٹے کو کل سے میرے پاس بھجوا دیں۔ مَیں نے پروفیسر لطیف الزماں خاں صاحب سے گزارش کی کہ آپ تو انگریزی کے اُستاد ہیں اور میرے بیٹے کی انگریزی اور اُردو کی لکھائی بہت بُری ہے اگر اُس کی انگریزی کمزور ہوتی تو مَیں آپ کے پاس اُسے ٹیوشن کے لیے بھجواتا مَیں نے اُس کی لکھائی کو بہتر کرانا ہے۔ یہ سنتے ہی اُنہوں نے کتابوں کے ہجوم میں سے تین چار کاپیوں کو نکالا اور میرے سامنے رکھ کے بولے انہیں کھول کر دیکھو، مَیں نے جب وہ کاپیاں کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوا کہ اس میں انگریزی اور اُردو لکھائی کی مشقیں نظر آرہی تھیں اور وہ خوبصورت لکھائی پروفیسر لطیف الزماں خاں کی تھی۔ کہنے لگے اگرچہ مَیں انگریزی ادب کا اُستاد ہوں لیکن میری محبت اُردو کے ساتھ بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ مَیں آج بھی کسی کو خط لکھتے ہوئے زیڈ کی نِب کا استعمال کرتا ہوں۔ جب مَیں نے پروفیسر لطیف الزماں خاں کی اُن کاپیوں کو دیکھ کر فیصلہ کیا میرا چھوٹا بیٹا اپنی لکھائی کی بہتری کے لیے خاں صاحب کی شاگردی اختیار کرے گا۔ کتنی عجیب بات تھی پروفیسر لطیف الزماں خاں نے لاکھوں طالب علموں کو انگریزی ادب پڑھایا اور مَیں اپنے بیٹے کو اُن کے پاس انگریزی ادب کی بجائے لکھائی کی بہتری کے لیے بھیج رہا تھا۔ کیسے کیسے اساتذہ ہمارے ہاں سے اُٹھ گئے جن کے بارے میں کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اپنے مضمون کے علاوہ خوشخطی پر بھی کمال رکھتے تھے۔ ہمیں پروفیسر لطیف الزماں خاں اس لیے بھی یاد رہتے ہیں کہ جب بھی مَیں غالب کا کوئی شعر یا غزل پڑھتا ہوں تو ذہن کے ہر گوشے میں اُنہی کی وہ لائبریری چمک اُٹھتی ہے جہاں پر انہوں نے غالب کے عشق میں ہزاروں کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دسمبر کا آغاز ہوتا ہے تو مجھے 26 دسمبر 2013ءکی وہ سرد صبح بھی یاد آتی ہے جس میں معروف ادیب، خاکہ نگار، نقاد، شاعر اور ماہر غالبیات و رشید احمد صدیقی پروفیسر لطیف الزماں خان معمول کے مطابق اٹھتے ہیں اپنے کمرہ کا ٹی وی ریموٹ کنٹرول سے آن کرتے ہیں ان کی نظریں کسی بریکنگ نیوز پر ٹھہر جاتی ہیں اور پھر ۔۔۔۔ ۔ کچھ دیر بعد ان کا پوتا حسب معمول ان کے کمرہ میں آتا ہے دادا ، دادا کی آواز دیتا ہے لیکن پوتے کو دیکھ کر دادا اپنے بازو اس کی جانب نہیں بڑھاتے ۔ معصوم پوتا دادا کے قریب ہو کر پھر آواز دیتا ہے ” دادا۔ دادا“ ۔ اور پھر کوئی جواب نہ پا کر واپس اپنے والد کے کمرے میں چلا جاتا ہے اور اپنے پاپا کو جا کر کہتا ہے کہ دادا اس کی بات کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ یہ سن لطیف الزماں خان کا بیٹا ڈاکٹر انیس الزماں بھاگ کر اپنے بابا کے کمرہ میں جاتا ہے ۔ ٹی وی چل رہا تھا یقینا اس وقت بھی ضرور کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز چل رہی ہو گی ۔ لیکن 28 دسمبر 2013ءکی صبح ملتان کینٹ کے ایک گھر میں ایسی بریکنگ نیوز بنی جس کو سن کر اہل ادب سکتے میں آ گئے کہ لطیف الزماں خان خود کہا کرتے تھے ہماری والدہ مرحومہ خود کہا کرتی تھیں کہ جتنا عرصہ میں جیوں گی اتنا عرصہ میرا لَلَّا جیئے گا ۔ لیکن خان صاحب اپنی والدہ کی عمر سے پانچ سال پہلے ہی رخصت ہو گئے اور یوں خان صاحب پیشین گوئی کے منتظر نہیں رہے ۔ 87 سال کے ہونے کے باوجود ان کی یاداشت کا یہ عالم تھا کہ بچپن کی باتیں یاد تھیں۔ ہم نے ان کی زندگی کے بے شمار واقعات بار بار ان سے سنے ۔ غالب اور رشید احمد صدیقی کے عاشق تھے ۔ میں نے کبھی انہیں اچھے لباس میں نہیں دیکھا البتہ کتابوں کے انتخاب اور پھر اس کو جس انداز سے محفوظ کرتے وہ اپنی مثال آپ تھا ۔ خان صاحب جس دن کتاب خریدتے اسی دن اپنا نام ، تاریخ اور شہر کا نام لکھتے ۔ کتاب پڑھتے ہوئے سیاہ پین سے زِیر ، زَبر ، پیش لگانے کے ساتھ گرائمر کی غلطیاں بھی لگاتے جاتے۔ پروف کرنے کا ہنر ملتان میں صرف ان کو آتا تھا ۔ میں نے ان کی جتنی کتابیں شائع کیں ہر کتاب کی اشاعت پر پل صراط سے گزرا۔ کبھی سرورق کی کلر سکیم پر ان کا غصہ دیکھا تو کبھی بک بائنڈر کے گناہ دھوتے رہے ۔ اگر ان کی کسی کتاب پر پرنٹنگ پریس والے نے سیاہی تیز چلا دی تو پھر خان صاحب کا تیز غصہ بھی مجھے سہنا پڑا ۔ پندرہ سال کے اس تعلق میں کئی مرتبہ انہوں نے مجھے کہا میں آپ کی دکان پر نہیں آﺅں گا ۔ میں ہنس کر ان کی یہ بات سنتا اور پھر دو تین دن بعد انہیں فون کرتا کہ خان صاحب غالب پر ایک نئی کتاب آئی ہے تو میرے فون کے کچھ دیر بعد خان صاحب کتاب نگر پر ہوتے ۔ کتاب لیتے، چائے پیتے اور گھر چلے جاتے۔ خان صاحب کی ایک خوبی حق گوئی تھی اور حق کا پیمانہ ان کا اپنا طے کردہ تھا۔ اگر ان کو کوئی شخص برا لگتا تو پھر مشکل سے اسے معاف کرتے ایسے لوگوں کی مثال ان کی زندگی میں سینکڑوں کی تعداد میں تھی جبکہ جن سے وہ محبت کرتے تو پھر وہ اس محبت کو بھی مشکل بنا دیتے ۔ کیونکہ خان صاحب سے دوستی اور محبت کے راستے کانٹوں سے گزر کر آتے تھے ۔ ان کے خطوط اور انشائے لطیف کی پانچوں جلدوں پر بے شمار احباب نے ناگواری کا اظہار کیا لیکن انہوں نے اپنے لکھے ہوئے کسی بھی لفظ کو واپس نہ لیا۔
لطیف الزماں خان نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری ۔ کتابوں سے عشق کیا ۔ روزگار انگریزی ادب سے کمایا لیکن عشق اردو سے کیا ۔ ایمرسن کالج میں پڑھاتے رہے لیکن ایمرسن کالج کے بہت سے کولیگ سے برملا اختلاف کیا ۔ اپنی کتابوں سے عشق جنون کی طرح کرتے تھے ۔ کسی زمانے میں انہوں نے واجدہ تبسم کی تمام کتب شعبہ اردو بہاالدین زکریا یونیورسٹی کو عطیہ کیں تو کسی نے انہیں بتایا کہ وہاں سے کتابوں کا سیٹ غائب ہو گیا ہے۔ یہ سنتے ہی آﺅ دیکھا نہ تاﺅ وائس چانسلر کو ایک خط لکھا اور کتابوں کی برآمدگی کے لئے مجھے تفتیشی افسر مقرر کیا ۔ میں نے اس خط کا تذکرہ ڈاکٹر انوار احمد سے کیا تو وہ کہنے لگے خان صاحب کو کون سمجھائے ان کی عطیہ کی ہوئی تمام کتب موجود ہیں۔ چند کتابیں طلباءو طالبات نے ایشو کروائی ہوئی ہیں ۔ میں نے جا کر خان صاحب کو کتب کی بازیابی کا بتایا تو بچوں کی طرح خوش ہوئے ۔
زندگی کے آخری چند سال ا نہوں نے ڈاکٹر صلاح الدین حیدر، ڈاکٹر عامر سہیل اور ڈاکٹر ابرار عبدالسلام کے ساتھ گزارے۔ حالی روڈ گلگشت کالونی میں غالب نما کے نام سے گھر تھا انہوں نے اپنی جیب سے خریدی گئی ہزاروں کتابوں سے سجایا ۔ حقیقی معنوں میں وہ اس مثال پر پورا اترتے تھے کہ کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں ۔ گھر کے ہر کمرے میں کتابیں ہی کتابیں نظر آتی تھیں۔ ہر کتاب کو خود کاغذ کا کَور چڑھاتے اس کے پشتے پر کتاب اور مصنف کا نام لکھتے ۔ مطالعہ کے بعد جس جگہ وہ کتاب رکھتے اس جگہ کو بھی یاد رکھتے ۔ گھر میں ان کی لائبریری کے لئے کوئی خاص کمرہ مختص نہ تھا بلکہ انہوں نے پورے گھر کو لائبریری کا درجہ دے رکھا تھا۔ اگر کسی کو ان پر شک گزرتا کہ وہ کتابیں کہ وہ کتابیں چوری کرتا ہے تو خان صاحب اس کا داخلہ اپنے گھر میں بند کر دیتے ۔ اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے لوگوں کو اپنے گھر آنے سے منع کر رکھا تھا۔ ہم جب بھی خان صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے تو زبردستی ان کی پلیٹ میں چکن کی بوٹیاں ڈال دیتے ۔ اس پر ہمیشہ ایک ہی بات کہتے آپ لوگوں نے مجھے کیا مسلمان سمجھا ہوا ہے جو میری پلیٹ بوٹیوں سے بھر دیتے ہیں؟۔ سالن کے گھی کو وہ روغن کہتے ۔ اسے بھی نا پسند کرتے ۔ کھانا ختم کرتے ہی ہمیں حکم دیتے سامنے سے ہاتھ دھو لویہ روغن والے ہاتھ تم کتابوں کو لگاﺅ گے یوں میری کتابیں خراب ہو جاتی ہیں۔ ہاتھ دھوتے ہی وہ ہمیں تولیے کہ جگہ بتاتے کہ ہاتھ صاف کر لو۔ ان کے اس ہدایت نامے کی ایک ہی وجہ ہوتی تھی کہ کتابیں خراب نہ ہوں۔ انہوں نے اپنی کتابیں تین حصوں میں عطیہ کیں ۔ پہلا حصہ انہوں نے ہمدرد یونیورسٹی کراچی دوسرا حصہ گوشہ رشید احمد صدیقی کے نام بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور تیسرا حصہ بھی شعبہ اردو بہاالدین زکریا یونیورسٹی کو دیا۔ تیسرے حصے میں اتنی نایاب کتب تھیں کہ جو بھی کتاب دوست وہ ذخیرہ دیکھ لیتا اس کے منہ میں پانی آ جاتا۔ اگر میں بھی ان سے کوئی کتاب مانگتا توجلد واپسی کی شرط پر دیتے۔ خان صاحب کا مذہب کے معاملے میں واضح نظریہ تھا ۔ اس بارے میں اکثر کہا کرتے نیاز فتح پوری کی تحریریں پڑھ کر تمام مذہبی جالے دور ہوئے ۔ میں نے مذہب کو عقل کی بنیاد پر سمجھا ہے جبکہ مجنوں صاحب کی تحریریں پڑھ کر میں نے سنجیدہ ادب کا مطالعہ کرنا سیکھا ۔ خان صاحب جب بھی فرقہ واریت کی خبریں پڑھتے بے حد رنجیدہ ہو جاتے اور بے ساختہ کہہ دیتے ۔
” میں خدا سے نہیں ڈرتا کہ وہ غفور الرحیم ہے معاف کر دیتا ہے ۔ مسلمانوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ کبھی معاف نہیں کرتے“۔
ساری زندگی ان کی خدا سے ایسی دوستی رہی جس کو ہم نے جنگ کہہ سکتے ہیں نہ دوستی۔ اس کے بارے میں وہ جوان بیٹے کی موت کا ذکر کرتے کہ جب وہ بیمار ہوا تو میں نے خدا سے بہت التجائیں کیں لیکن خدا نے ہماری ایک نہ سنی تو ہم بھی خدا سے روٹھ گئے ۔ زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے مرثیے کہنے شروع کر دیئے۔مرثیے کے اصل محرک علامہ طالب جوہری ٹھہرے۔ انہوں نے وہ مرثیے علامہ عقیل الغروی کو بھی سنائے ۔ میرے بے حد اصرار پر وہ اس بات پر تیار ہوگئے تھے کہ اسے کتابی شکل میں شائع کرائیں گے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ غالب اور رشید احمد صدیقی سے عشق کرتے تھے ۔ اس عشق نے انہیں پوری دنیا میں اَمر کر دیا ۔ دنیا میں کہیں بھی دیوان غالب یا اس کی شرح شائع ہوتی ، ان کی خواہش ہوتی کہ وہ سب سے پہلے ان کے پاس پہنچے ۔ غالب کے متعلق ہمیشہ یہ کہتے غالب کو نہ پڑھا ہوتا تو انسانیت کے معنی و مفہوم سے ناواقف تھا ۔ رشید صاحب کی تحریروں کو نہ پڑھتا تو علی گڑھ کی اہمیت سے ناآشنا رہتا ۔ کتابیں ہمیشہ خرید کر پڑھتے اور کسی کو ان کی لائبریری سے کوئی ضرورت ہوتی تو وہ بڑی مشکل سے کتاب دینے پر راضی ہوتے۔ البتہ طلباءو طالبات کے لئے یہ شرط ہوتی کہ ان کے ہاں بیٹھ کر کتابوں سے استفادہ کیا جائے ۔ اگر کبھی وہ کسی کو کتاب پڑھنے کے لئے دے دیتے تو واپسی کا تقاضا بھی ضرور کرتے۔
ملتان کے ہر دوسرے ادیب و شاعر کے ساتھ ان کا اختلاف رہا لیکن جب ان کو معلوم ہوتا کہ فلاں ادیب یا شاعر انتقال کر گیا ہے تو خان صاحب سب سے پہلے ان کے گھر پہنچ جاتے جس کی زندہ مثال عرش صدیقی اور عاصی کرنالی کے جنازے تھے۔ عاصی کرنالی کے جنازے میں شریک ہونے کے لئے سب سے پہلے مرکزی عید گاہ پہنچ چکے تھے ۔ وہاں موجودہر ادیب و شاعر سے تعزیت کر رہے تھے۔
گزشتہ کئی برسوں سے انہیں چلنے پھرنے میں دقت ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ صبح سویرے اپنے بیٹے ڈاکٹر انیس کے گھرسے روانہ ہوتے دوپہر کا کھانا گلگشت والے گھر میں کھاتے۔ ان کے تمام حب داروں کو معلوم تھا کہ خاں صاحب دو بجے دوپہر تک ”غالب نما“ میں ہوتے ہیں اس لئے ملنے والوں کی آمد و رفت جاری رہتی۔ وہ اس گھر میں تنہا مسافر کی طرح رہے نہ کوئی روگ پالا۔ سوائے کتابوں سے عشق کے اور اس کی خاطر کسی سے جوگ نہیں لیا ۔ بظاہر خوش لیکن ان کا باطن دکھی رہا۔ پوری زندگی کڑی دھوپ میں گزاری لیکن جس عشق کا آغاز انہوں نے غالب سے کیا آخر تک اسی عشق میں غرق رہے۔ انہوں نے لاکھوں خرچ کئے صرف غالب کی محبت میں ۔ نجانے ان کو کیسے کیسے دکھ تھے جو کلام غالب کو پڑھ کر سکھ میں بدل لیتے تھے ۔ وہ غالب کی محبت میں قریہ قریہ کوچہ کوچہ پھرتے رہے۔ اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا کرتے ۔ انشائے لطیف کے نام سے ان کے خطوط کے پانچ مجموعے شائع ہوئے تو وہ خط پڑھ کر ہر دوسرا شخص ان سے ناراض ہوا۔ ڈاکٹر عارف ثاقب کی دل سے قدر کرتے ان کی شادی نہ کرنے کا قصہ بھی سب کو سناتے ۔ گفتگو میں تلخی نمایاں ہوتی لیکن شائستگی کا دامن بھی کبھی نہ چھوڑتے برہم ہونے کو آتے تو ایک دم ہی غصہ کر لیتے ۔ تند مزاجی اور بدگمانی کو اپنے سامنے رکھتے جب جی چاہتا ان کو اپنے اوپر اوڑھ لیتے ورنہ دوستوں میں گھل مل کر رہتے ۔
خان صاحب رحیم یار خان سے یکم ستمبر 1963 ءکو ملتان پہنچے اور 26دسمبر 2013 ءکو انتقال کیا ۔ میری ان سے ملاقاتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر سب نشستوں کا احوال لکھوں تو بہت سے دوست ناراض ہو جائیں گے ۔ دسمبر کے اوائل میں مَیں نے انہیں سجاد جہانیہ کا ایک پیغام دیا کہ وہ اپنے اخبار کے لئے انٹرویو کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بھئی میری شخصیت کیا میری ادبی حیثیت کیا؟ انہیں تمام عمر جھوٹ سے نفرت رہی ۔ بڑے سے بڑے شخص یا ہجوم کے سامنے حق بات کہنے سے کبھی نہیں جھجکے۔ خواہ اس کے لئے انہیں بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ان کی ایک ایک سانس میں کئی پرت موجود تھے۔ کبھی اپنے ہاتھوں سے وہ کسی کو زندگی کی نوید دیتے تو کبھی وہ خود موت کی وادی کو ہاتھ لگا کر واپس زندگی کی جانب لوٹ آتے ۔ کبھی وہ اپنے بیٹے کے غم میں مرتے تو کبھی اپنی اہلیہ کے انتقال پر رنجیدہ دکھائی دیئے۔ آخری بار وہ اپنی بہو یعنی ڈاکٹر انیس کی جواں سال اہلیہ کی وفات پر دکھی نظر آئے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ گلگشت والے گھر سے جب کینٹ والے گھر جاتے تو ڈاکٹر انیس کے تینوں بچوں کے لئے ان کی پسند کی چیزوں کے پیکٹ بناتے اور جاکر جب ان کو دیتے تو گھر میں ”دادا پہلے مجھے، پہلے مجھے“ کا شور بلند ہو جاتا ۔
نومبر 2013ءمیں انہوں نے اچانک فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پوری لائبریری شعبہ اردو بہاالدین زکریا یونیورسٹی کو عطیہ کریں گے۔ ڈاکٹر روبینہ ترین ، ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر قاضی عابد اور وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ اور دیگران کے ہاں گئے تو کہنے لگے کہ ہم نے جب کہہ دیا تھا یہ تمام کتابیں آپ کی ہیں تو وائس چانسلر کو کیوں ساتھ لائے ہیں ۔ ان کی کتابوں کی فہرست تیار ہونے لگی تو مجھے فون آیا کہ شاکر میری لائبریری کو آخری بار میرے گھر میں دیکھ لو پھر یہ کتابیں یونیورسٹی چلی جائیں گی۔ میں نے کہا خان صاحب کیا کتابوں کے بغیر جی لیں گے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے ۔ میں نے خان صاحب کا گھر جب کتابوں کے بغیر دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے شاید ان کو علم ہو چکا تھا کہ وہ زیادہ عرصہ نہیں جئیں گے۔ پھر اگلی مرتبہ میں نے دیکھا ان کے صحن میں جو پودے رکھے ہوئے تھے انہوں نے وہ بھی کسی کو دے دیئے۔ ان پودوں کو وہ روزانہ پانی دیتے ۔ پالتو بلی بھی کہیں دکھائی نہ دی۔ گھر غالب کی کتب سے خالی ہو گیا تو انہوں نے بھی سوچا کہ اب جینے کا لطف کہاں؟ 26 دسمبر 2013ءکی صبح وہ معمول کے مطابق اٹھے دل میں درد اتنی شدت سے اٹھا کہ وہ بقول غالب یہ بھی نہ کہہ سکے۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
گھر میں ڈاکٹر بیٹا موجود تھالیکن وہ درد کی دوا لئے بغیر چلے گئے کہ اتنے انا پرست تھے کہ وہ آخری عمر میں بھی کسی کے محتاج نہ ہوئے اور خاموشی سے دنیا سے چل دئیے۔ ان کے جانے سے ملتان ایک بہت بڑے عالم سے محروم ہوا۔ بقول غالب؛
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
فیس بک کمینٹ