27دسمبر 2007سے لےکر27دسمبر2018کاعرصہ گیارہ سال پر محیط ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے بے نظیر بھٹو کو ہم سے بچھڑے 100 برس گزرگئے۔گزشتہ گیارہ سالوں میںمحترمہ کی غیر موجودگی سے اتنی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے زندگی کی ساعتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ لوگوں کی یادداشتوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ پی پی کا ذکر اپنے جائزوں اور تجزیوں میں خال خال ہونے لگا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کررہ گئی ۔وہ پارٹی جس کو ضیا جیسا آمرگیارہ سالوں میں پھانسی، کوڑوں اور قید و بندکی صعوبتوں سے نہ ختم کر سکا۔ وہ پارٹی اپنوں کے ہاتھوں اپنا انجام دیکھ رہی ہے۔ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے نام ہیں لیکن اب پیپلز پارٹی کے جیالوںکو اپنے زندہ لیڈروں کی طرف سے کوئی ایسی لائن نہیں مل رہی جس کے بل بوتے پر جیالے چائے خانوں، پارٹی اجلاسوں، گلی محلوں اور اپنے سیاسی مخالفین کو جوا ب دے سکیں ۔محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی پھانسی کے بعد پارٹی معاملات کو اس انداز میں چلایاکہ وہ چاروں صوبوں کی زنجیر بن گئی۔
جیالوں کا تذکرہ ہوا، اب اُن کی حالتِ زار بھی دیکھ لیں۔ یہ جیالے ضیاءدور میں نامساعد حالات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی برسی اور پیدائش کے موقع پر گڑھی خدابخش ہر شہر سے سینکڑوں کی تعداد میں جایا کرتے تھے۔ سالِ گزشتہ ملتان کے جیالوں نے حاضری لگانے کی انتہا یوں کی کہ ملتان سے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا۔ اس نے اپنے کراچی جانے کی خبر دوستوں کو کی۔ اس خبر کی مشہوری اتنی ہوئی کہ چند مقامی رہنماؤں نے سوچا کہ ہم نے برسی پر تو جانا نہیں چلو ایک چار پانچ سو روپے کا ترنگا پینافلیکس بنوا کے ریلوے اسٹیشن جاتے ہیں، پیپلز پارٹی کے جیالے کو رخصت کریں گے۔ ملتان ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کی چائے خانے پر بیٹھ کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائیں گے۔ فوٹوگرافر کو تھوڑا سا زادِراہ پیش کریں گے۔ پینافلیکس ہاتھ میں اٹھا کر دس بارہ لوگ تصویر بنوا کر گھروں کو واپس آ جائیں گے۔ جس دن اُس جیالے نے کراچی جانا تھا پروگرام کے تحت مقامی رہنما ریلوے اسٹیشن پر اکٹھے ہوئے۔ بینظیر بھٹو والے پینافلیکس کو ہاتھوں میں اٹھایا، تصاویر بنوائیں، اِدھر ریلوے گارڈ نے گاڑی کو روانہ کرنے کے لیے سبز جھنڈی دکھائی اُدھر پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بینظیر بھٹو کی برسی کو بھی جھنڈا دکھایا اور گھروں کو چلے گئے۔ اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے زوال کا سبب کیا ہے۔ اس کے زوال کا سبب عروج کی پارٹی قیادت یعنی آصف علی زرداری سے شروع ہو کر زمین کے کارکنوں یعنی ہر شہر کی مقامی تنظیم کا وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے لوگ پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے۔ بینظیر بھٹو کی برسی پر اصولی طور پر تو انہی کا نوحہ ہونا چاہیے تھا لیکن پیپلز پارٹی بھی تو بینظیر بھٹو کا دوسرا نام ہے۔ جب بینظیر بھٹو ہی دنیا میں نہ رہیں تو پیچھے رہ جانے والی قیادت نے بھی سوچا کہ پارٹی کو کس طرح دفن کیا جائے۔
دور کیوں جائیں پورے پنجاب میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا جس طرح صفایا ہوا اس کے باوجود اُن کے مرکزی رہنماؤں کی گردن میں سریا ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ بچے کھچے کارکن کب تک ”جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔ آنے والے چند سالوں میں یہ نعرہ بھی کتابوں میں محفوظ ہو جائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت پارٹی کو بینظیر بھٹو کے دور کی یاد دلا سکتی ہے تو یہ ناممکن بات ہے۔ بہرحال آصف علی زرداری سندھ کی سطح پر پیپلز پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن آخر کب تک زندہ رکھیں گے؟27دسمبر کو یقینا انہوں نے ایک کامیاب شو کیا لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جو پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر ہوا کرتی تھی اب اس کے کارکن سندھ میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس کی وجوہات یقینی طور پر کرپشن ہی ہے لیکن اس پر پارٹی قیادت کی اب تک کوئی نظر نہیں ہے۔
طویل جلا وطنی کے بعد بے نظیر بھٹو 10اپریل1986کو کرا چی کے بجائے لاہور ائر پورٹ پر اُتریں تو پو رے ملک سے لوگ بے نظیر بھٹو کی جھلک دیکھنے کے لئے سڑکو ں پر بے قرار کھڑے تھے وہ لاکھو ں افرادکو اپنے سامنے دیکھ کر آپے سے باہر نہیں ہوئیں بلکہ سیاسی تدبر کے اظہار کا مظاہرہ کرتے ہوئے مینار پاکستان پر خطاب کر نے کے لئے مائیک کے سامنے آئی لاکھو ں افراد نے رت جگے کے باوجود پورے جوش و خروش سے محترمہ کا بے نظیر خطاب سنا۔ لاہورکی سڑکیں اورگلیاں، کوچے پی پی پی کے پرچموں سے سجے ہو ئے تھے۔ بی بی سی نے تب بے نظیر بھٹو کے جلسے کی کو ریج کرتے ہوئے کہا تھاکہ جلسے میں اتنی خلقت تھی کہ انہیں گنا نہیں جاسکتا ۔یہ وہ زمانہ تھاجب محترمہ کی اُردو میں انگریزی کا لب ولہجہ نمایاں تھا۔ مطلب یہ ہے کہ 1986میں محترمہ کی اُردو اتنی اچھی نہیں تھی لیکن اس جلسے میں لاکھوں افراد نے ان کے اس انداز کونہ صرف سمجھا تھا بلکہ ہر جملے پر تالیاں بھی بجائی تھیں۔ یہی وہ جلسہ تھا جب محترمہ نے” میں باغی ہوں“ والی نظم پڑھی ۔ پھر یہی نظم پی پی کے جلسوں کی شان بن گئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ شاید آخر ی بڑا جلسہ تھا جس میں عوام کے لئے کرسیاں نہیں لگائی گئی تھیں، آج کل کے سیاسی جلسوں میں عوام کے لئے کرسیاں لگاکر گنتی کی جاتی ہے تب پی پی کے جلسو ں میں عوام کھڑے ہوکر شریک ہوا کرتے تھے ۔
بات ہو رہی ہے 10اپریل 1986کے استقبال کی ،اُس استقبال کی خاص بات جہاں عوام کی بھر پور شرکت تھی وہاں پر خواتین کا جوش وخروش دیدنی تھا ۔مکانوں کی چھتوں سے عورتیں دوپٹے پھینک رہی تھیں اور بے نظیر بھٹو وہ دوپٹے فوراً اپنے سر پر اوڑھ لیتی تھیں۔ اِسی طرح ایک مکان کی چھت پر ایک عورت کون آئسکریم کھارہی تھی بے نظیر بھٹو نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ آئس کریم مجھے بھی کھلاواُس عورت نے آئس کریم ٹرک کی جانب اُچھال دی اگر چہ آئس کریم کا کچھ حصہ ہجوم پر بھی گرا لیکن وہ آئسکریم بے نظیر بھٹو تک پہنچ ہی گئی، بی بی نے اُس عورت کا شکریہ ادا کیااور آئس کریم کھانا
شروع کردی۔
10اپریل1986سے لے کر 27دسمبر2007ءکا یہ سفربے نظیر بھٹو کے لئے سے عروج و زوال لا یا کبھی بطور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اپنے کڑیل جوان بھائی میر مرتضیٰ بھٹوکا ناگہانی قتل دیکھنا پڑا۔ ابھی وہ اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی رسم سوم کے ختم سے اٹھی ہی نہیں تھیں کہ انہی کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے بطور صدر اُن کی حکومت ختم کردی۔ یعنی ایک ہفتے میں بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ اپنے حقیقی بھائی کے لئے فاتحہ پڑھی تو دوسرے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کے تعلق پر اپنے ہا تھ اٹھا لیے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیا سی زندگی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی میں دکھ زیادہ تھے اور سکھ کم۔ پہلے باپ کو پھانسی دے کر انہیں ہمیشہ کے لئے دُکھی کیا گیا۔ پھر شاہنواز کی موت کے ذریعے بےنظیر کے صبر کو آزمایا گیا۔ پھر میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل کے ذریعے طاقت کو کم کرنے کی سازش بنائی گئی، بینظیر کے شریک حیات کو پابند سلاسل کر کے کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان کی زندگی میں نصرت بھٹو زندہ درگور ہو گئیں۔ اکتوبر 2007ءمیں سانحہ کارساز ان کی آنکھوں کے سامنے برپا کیا گیا۔ پارٹی کے جن رہنماوں پر بی بی نے احسانات کئے تھے انہوں نے ہر مرحلے پر کمرمیں چھرا گھونپا دُکھوں اور مشکلوں کے باوجودمحترمہ بینظیر بھٹو بینظیر ہی رہیں۔مشرقی عورت ہونے کے ناطے اپنے شریک حیات کی غیرموجودگی میں اپنے بچوں کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔ وہ اپنے اندر فولاد کی سی مضبوطی رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2007 ءمیں طویل جلاوطنی کے بعدجب انہوں نے وطن واپسی کا قصدکیا تو انہیں معلوم تھا کہ موت ان کے تعاقب میں ہے لیکن وہ موت سے کب گھبرانے والی تھیں۔وہ اپنے نام کی طرح بینظیرتھیں۔اپنے بازو پر امام ضامن باندھے محترمہ جب کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو انہوں نے جہازکے پائیدان پر ہی دست دُعا بلندکئے آنکھوں میں وطن واپسی پر خوشی کے موتی نمایاں ہوئے یہ خوبصورت منظر ٹی وی پر کروڑوں انسانوں نے دیکھا اور اسے اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلیا کہ بھٹو خاندان کی یادیں اتنی سحر انگیزہیں کہ کوئی بھی شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ بینظیر بھٹو کی طرزِ سیاست سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔بینظیر بھٹوکو 27 دسمبر 2007ءکو شہیدکردیاگیا۔پارٹی کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر بچایا ۔پاکستان بچ گیا لیکن پارٹی آہستہ آہستہ نئی نسلوں کے ذہنوں سے محو ہورہی ہے وہ پارٹی جس نے روشن پاکستان اور فرقہ واریت سے پاک وطن کا نعرہ دیاتھا آج ملکی منظرنامے میں اُس انداز میں نظر نہیں آرہی ہے جس کی آج بے حد ضرورت ہے بھٹو اور بینظیراب دنیا میں نہیں ہیںلیکن ان کے افکارکی روشنی میں اب بھی ہم بہتر پاکستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں کہ بینظیر کے اپنے اثاثے میں اتنے نظریات چھوڑگئی ہیں کہ اس پر عمل پیرا ہوکر پی پی ایک بار پھر مقبول جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ یہ کام پی پی کے کون سے رہنما کریں گے؟
فیس بک کمینٹ