فی زمانہ اگر کسی پیارے کی طرف سے دس پندرہ نئی کتابوں کا تحفہ ملے تو ایسے میں جی چاہتا ہے کہ تحفہ بھجوانے والے کو بے شمار دُعاؤں سے نوازا جائے۔ ہمیں یہ تحائف کبھی برادرم افضال احمد بھجواتے ہیں، کبھی اکادمی ادبیات پاکستان سے ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور ڈاکٹر راشد حمید کرم فرمائی کرتے ہیں۔ جہلم سے امرشاہد کے خوبصورت کتب کے تحائف گاہے گاہے ہمارے دل و دماغ پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ ایسے بے شمار دوستوں میں ایک دوست سرگودھا کے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ہیں جنہوں نے ایک ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی بے شمار کتب بھجوا کر میری لائبریری کو باوقار بنا دیا ہے۔ ابھی مَیں بے شمار دوستوں کے تحائف سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ کی طرف سے ایک اور پیکٹ موصول ہو گیا۔ ان کے اس پیکٹ میں سہ ماہی ادبیات اطفال پاکستان کا پہلا شمارہ دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا کہ کبھی ہم بڑی باقاعدگی سے بکسٹال سے بچوں کے رسائل خریدنے جایا کرتے تھے۔ تعلیم و تربیت، جگنو، ہونہار، نونہال، آنکھ مچولی، بچوں کی دنیا اور بچوں کا ڈائجسٹ خریدنے میں ہمارا کثیر سرمایہ خرچ ہو جایا کرتا تھا۔ پھر اختر عباس نے ماہنامہ پھول کی اشاعت ثانی کا اہتمام کیا کیونکہ اس سے قبل نامور افسانہ نگار غلام عباس پھول کی ادارت کر چکے تھے۔ یہ تمام معمولات عمر گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوتے رہے۔ بچوں کے رسائل کو چھوڑ کر ہم اخبارِ جہاں، اخبارِ خواتین، جاسوسی، عالمی اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھنے لگے۔ ایسے میں کبھی سب رنگ مارکیٹ میں آتا تو سب رنگ بھی ہم سب لوگوں کی طرح لائن میں لگ کر خرید کے گھر لاتے۔ ڈائجسٹ کے سحر سے نکلے تو ہم نے کتابوں میں جی لگا لیا۔ یہ جی ایسا لگا کہ کسی اور جگہ جی لگانے کی فرصت ہی نہ ملی۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے جب سے یہ تحفہ بھجوایا ہے تب سے لے کر اب تک ہم اس کی کئی مرتبہ ورق گردانی کر چکے ہیں۔ کہانیاں، نظمیں، تراجم، مضامین، عالمی ادب سے انتخاب سمیت سب کچھ اس میں موجود ہے۔ کہیں پر اگر اسماعیل میرٹھی کی نظم ہے تو اُسی شعبہ میں ناصر زیدی، ابصار عبدالعلی اور اُفق دہلوی بھی نظر آتے ہیں۔ زندہ تحریروں میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق اور سعادت حسن منٹو کی کہانیاں شامل ہیں۔ جبکہ کہانیوں کے حصے میں ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر، اختر عباس، نذیر انبالوی، ڈاکٹر عمران مشتاق، محمد شعیب مرزا، احمد عدنان طارق، محمد مزمل صدیقی سمیت بے شمار لکھنے والے جگمگا رہے ہیں۔ ”ادبیات اطفال“ بظاہر بچوں کا رسالہ ہے لیکن اگر اسے بڑے بھی اپنی مطالعہ کی میز پر سجائیں تو ان کی میز اور منور ہو جائے گی۔ سرورق میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اُمید ہے اگلے شمارے میں اس طرف لازمی توجہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر اس کا سائز بھی مارکیٹ میں دستیاب بچوں کے رسائل جیسا کر لیا جائے تو اس طرح یہ رسالہ بچوں کے رسائل کی فیملی میں شامل ہو جائے گا۔
اگلے شمارے میں حکیم محمد سعید، احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، اسد اریب، محمود شام، فرخندہ لودھی، امتیاز علی تاج، مظہر کلیم، اشتیاق احمد، میرزا ادیب سمیت بے شمار لکھنے والوں کی تخلیقات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ہمارے دور کے بچے یہ جان سکیں کہ اُردو کے ہر بڑے ادیب شاعر نے ان کے لیے ادب تخلیق کیا ہے۔ ویسے بھی ادبیات اطفال کے مدیر اختر رضا سلیمی بھی اعلیٰ پائے کے اہلِ قلم ہیں۔ وہ اگر ماضی کے لکھنے والوں کی کہانیوں اور شاعری کو شامل کریں گے تو پرچہ مزید خوبصورت ہو جائے گا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے دیگر تحائف میں احمد حسین مجاہد کی رموز شعر پر ایک شاندار کتاب بھی شامل ہے۔ احمد حسین مجاہد چونکہ خود منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں، شعر کہنے کے رموز سے واقف ہیں، اس لیے یہ کتاب ان سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا۔ انہوں نے اس کے آغاز میں ”رموزِ شعر“ کے ظہور کے متعلق بتایا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب کیوں لکھی ہے۔ ”رموزِ شعر“ کے موضوع پر لکھتے ہوئے انہوں نے اعتراف کے باب کے آغاز میں وحید احمد کی نظم لکھی ہے:
ہم پیدا کرتے ہیں
ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں
تو شکلیں بنتی ہیں
ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں
جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں
ہم شاعر ہوتے ہیں
پھر اس کے بعد ان کی تخلیقات کے جوہر مختلف انداز سے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ احمد حسین مجاہد چونکہ خود عروض کے ماہر ہیں اس لیے ان کے لیے رموزِ شعر پر بات کرنا آسان تھا۔ لیکن انہوں اس کتاب میں شاعری کرنے والوں کو نت نئے راستے دکھائے ہیں۔ نامور شعراءکرام کی شاعری کے انتخاب سے کتاب کو سجایا ہے۔ جس سے ”رموزِ شعر“ کا درجہ ایک منفرد کتاب کا ہو گیا ہے۔ اس کتاب میں احمد حسین مجاہد شاعری کے مجاہد بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایک مشکل موضوع پر قلم اٹھا کر احمد حسین مجاہد نے ثابت کیا ہے کہ وہ شاعری کو مشکل صنف ادب نہیں جانتے۔ کتاب کا سرورق بے حد خوبصورت جبکہ قیمت مناسب ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان اس سے قبل ڈرامہ نگاری کے موضوع پر بھی کتاب شائع کر چکی ہے جو موضوع کے اعتبار سے اہم کتاب ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس موضوع پر مارکیٹ میں موجود پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ نامور ناول نگار و مترجم ڈاکٹر ارشد وحید نے میلان کنڈیرا کی کتاب ”ناول کا فن“ بھی ایک معیاری ترجمہ ہے۔ یہ کتاب میلان کنڈیرا کی وجہ سے اہم ہے کہ میلان کنڈیرا خود بھی ناول نگاری کا ایک جانا پہچانا نام ہے اس لیے یہ ترجمہ ہر خاص و عام کو پڑھنا چاہیے۔ منیر فیاض نے معاصر چینی افسانے کے نام سے انتخاب و ترجمہ کر کے پڑھنے والوں کی چینی ادب تک رسائی آسان بنا دی ہے۔ سیّد ضمیر جعفری، احمد فراز اور ادبی شخصیات کی شخصیت و فن پر کتابیں بھی قابلِ مطالعہ ہیں۔
تمام کتب کی پرنٹنگ بہت اعلیٰ جبکہ قیمتیں معمولی ہیں۔ ان تمام کتابوں کی اشاعت میں اصل محنت اختر رضا سلیمی کے تازہ ذہن کی ہے۔ ڈاکٹر راشد حمید اگر سرپرستی نہ کرتے تو یہ کتب ہمارے سامنے نہیں آ سکتی تھیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان اس اعتبار سے خوش نصیب شخص ہیں جن کے آئیڈیے کو ڈاکٹر راشد حمید اور اختر رضا سلیمی حقیقی شکل دیتے ہیں۔ آج کل ساون کی وجہ سے ملتان میں شدید حبس ہے لیکن اکادمی کے یہ تحفے ملنے کے بعد یوں لگ رہا ہے جیسے بہار آ گئی ہے۔ شکریہ اکادمی ادبیات پاکستان کہ آپ کے تحفوں نے میرے شب و روز خوبصورت بنا دیئے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)