ملک میں اداروں کی چنی ہوئی پسندیدہ حکومت قائم ہے۔ اپوزیشن کے تمام سیاسی لیڈر جولائی 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کا فیصلہ پہلے سے کر لیا گیا تھا۔ عمران خان اور تحریک انصاف فطری طور سے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور پاک فوج کے ترجمان بھی بجا طور سے یہ اعلان کرتے ہیں فیصلہ تو بیلٹ باکس سے نکلنے والے ووٹوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس میں فوج کا کیا لینا دینا؟ اس کے باوجود حکومت اور فوج کو یہ سچ فخر سے تسلیم کرنے اور اس کا بار بار اعلان کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
اس اعتراف کی روشنی میں حکومت البتہ یہ جواب دینے سے قاصر ہے کہ جب قومی سلامتی اور اس سے متعلق خارجہ امور کے معاملات بلکہ اب ان میں سی پیک اور عرب ریاستوں سے ملنے والے امداد نما قرضے بھی شامل ہو چکے ہیں، فوج کی مشاورت اور قیادت میں طے پارہے ہیں تو پیج تو ایک ہی باقی رہ جاتا ہے جس پر فوج ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ بس عمران خان کی قیادت میں یہ عجوبہ ہوا ہے کہ اقتدار کی ہوس اور وزیر اعظم بننے کی خواہش میں تحریک انصاف اپنے دعوﺅں، وعدوں اور جد و جہد کو نظر انداز کرتے ہوئے رینگتے رینگتے اسی پیج پر پہنچ گئی ہے جس پر فوج قائم رہنا چاہتی ہے۔ اسے اتفاق رائے نہیں، مجبوری کہا جاتا ہے۔
آرمی چیف نئے وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں بڑے اعتماد سے بھارت سے آئے ہوئے ایک مہمان کو کرتار پور کی سرحد کھولنے کی پیش کش کرتا ہے۔ نئی دہلی کی حکومت پہلے اس اچانک تبدیلی قلب پر حیران اور پھر پریشان ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے ملک کی سیاسی حکومتیں خیر سگالی کے اظہار کے لئے یہ اقدام کرنا چاہتی تھیں لیکن فوج ان کے راستے کی دیوار بنی رہی۔ اب فوج براہ راست اس کی پیش کش کررہی ہے۔ دشمن کا اس پر شبہ میں مبتلا ہونا فطری تھا۔
لیکن پھر اپنے ملک کی ایک اہم مذہبی اقلیت کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے پاکستان دشمن مودی حکومت کو بھی اس پیشکش کو تسلیم کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کی مجبور حکومت اس وقت سے اسے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دے کر خوش ہو رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک پیج پر رہنے کی جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، موجودہ حکومت خوش دلی سے اسے ادا کرنے پر تیار ہے۔ کابینہ اور پارلیمنٹ بے مقصد ادارے بن چکے ہیں۔ فیصلے پہنچائے جاتے ہیں اور فیصلوں کو اپنایا جاتا ہے۔ اس کی دوسری مثال کے طور پر سی پیک کے معاملہ پر عمران خان حکومت کا یو ٹرن ہی نہیں بلکہ قلابازی قابل توجہ ہو سکتی ہے۔
اسی طرح اگر فوج سے یہ سوال کر لیا جائے کہ اگرچہ یہ خوش آئند ہے کہ فوج اور منتخب حکومت ایک ہی پیج پر آ گئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ’صفحہ‘ تنگ نہیں ہو رہا۔ دونوں یعنی فوج (فوج کو ادارہ کہنا آئینی لحاظ سے غلط ہو گا کیوں کہ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ حکومت، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی طرح آئینی پوزیشن میں اداروں کی حیثیت رکھتی ہے ) اور حکومت اس ایک پیج پر تنگی محسوس نہیں کرتے۔ البتہ یہ جواب فوج اور اس کے مستعد ترجمان میجر جنرل آصف غفور پر ادھار ہے کہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے ساتھ یہ کشادگی اور وسیع الظرفی کیوں دیکھنے میں نہیں آسکی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ فوج کو ان دونوں سابقہ حکمران جماعتوں سے کوئی نہ کوئی شکایت رہی ہے اور ان دونوں ادوار میں ان حکومتوں کو کمزور کرنے، ان کے خلاف اسکینڈل کھڑے کرنے اور عدالتوں کے ذریعے ناکوں چنے چبوانے کا اہتمام کرنا ضروری تھا۔ کیا یہ بنیادی اصولی معاملہ نہیں ہے کہ فوج سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں رکھتی۔ اسے سیاسی حکومت اور منتخب پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق حکمت عملی بنانا پڑتی ہے اور انہی وسائل میں گزارا کرنا پڑتا ہے (یا کرنا چاہیے ) جو پارلیمنٹ حکومت کی تجویز کے مطابق عسکری اداروں کو فراہم کرنے پر راضی ہو۔ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں بھی یہ بوالعجبی دیکھنے میں آتی ہے کہ بجٹ تیار کرنے سے پہلے ملک کا وزیر خزانہ آرمی چیف کے حضور پیش ہوکر دریافت کرے کہ آپ اپنی ضرورتیں بتادیں پھر قوم کی ضرورتوں کو بھی دیکھ لیا جائے گا؟
یہ درست ہے کہ فوج پر ملکی دفاع کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اس بات کا فیصلہ تو بہر صورت ملک کی حکومت کو ہی کرنا ہے کہ یہ دفاع کیسے اور کس طریقے سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا کیوں ہو تا ہے کہ ہتھیاروں کی خریداری ہو یا محاذ کھولنے اور بند کرنے کا معاملہ، فیصلہ فوج کرتی ہے اور منتخب حکومت ایک اچھے بچے کی طرح اس کی اونر شپ لے کر قوم کو یہ لالی پاپ دینے کے بے مقصد کام میں مصروف ہو جاتی ہے کہ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔ اب دشمن ہماری سرحدوں کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
1998 میں ایٹمی دھماکے کرتے وقت بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی تھی اور اس سے پہلے اور بعد میں فوج کے کیے گئے فیصلوں اور احکامات کی پیروی میں سیاسی حکومتیں انہیں اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے بے حال ہوتی رہی ہیں۔ جیسے عمران خان کی حکومت بھارت کی طرف ایک کے مقابلے میں دو قدم بڑھانے کی پالیسی اور کرتار پور راہداری کے معاملہ کو اپنی حکومت کی امن پسندی اور بصیرت قرار دے کر مسرور ہے اور خود کو سربلند اور با اختیار سمجھنے کا ڈھونگ کر رہی ہے۔ حالانکہ اس حکومت کے کارپردازوں کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ عوامی مقبولیت کی بنیاد پر خود مختاری مانگنے والے لیڈروں کو تختہ دار پر جھلانے اور قید رکھنے کی روایت بھی اسی پاک سرزمین کی المناک روایتوں کا حصہ ہے۔
اس پس منظر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس انقلاب آفرین اعلان کا مطالعہ کرنا چاہیے جو آج انہوں نے اصغر خان کیس کی تحقیقات جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا ہے کہ ’فوج ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے‘۔ نہ جانے اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے سے چند روز قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کو یہ مجذوبانہ ریمارکس دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اور شاید اسی لئے یہ ضرورت محسوس ہوئی ہو کہ چیف صاحب اب چند دن کے مہمان ہیں اور جانے والوں کی بلند آہنگی کو ان کی مجبوری یا تعلی سمجھ کر نظر اندازکرنا سہل ہوتا ہے۔
کیوں کہ اس قسم کے اعلانات اختیار کو چیلنج نہیں کرتے۔ یہ اس سچ سے بھی عیاں ہے کہ اس بے باکانہ اعلان کے بعد نہ تو جنرل (ر) اسلم بیگ یا لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی پر مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر ملک کے جمہوری عمل میں مداخلت کی سازش اور کوشش کی گئی تھی تو اس قصور کے ذمہ داروں کا فوج کے اندرونی نظام میں احتساب کیوں ہو گا۔
ان دونوں سابقہ جرنیلوں کا یہ جرم قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا۔ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے نہ صرف 14 کروڑ روپے کے لگ بھگ وسائل جمعکیے بلکہ انہیں ان لوگوں میں تقسیم کیا جو ان کی ہدایات کے مطابق پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے تھے۔ اس لئے انہیں ملک کی عام عدالتوں میں ہی اپنے اس قومی جرم کا جواب دینا چاہیے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں ایف آئی اے کی طرف سے اصغر خان کیس کی تحقیقات بند کردینے کی درخواست اور اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے ائیر مارشل (ر) اصغر خان کے خاندان سے رائے لینے کے حکم کے بعد ملک میں جس قسم کی آرا کا اظہار ہوا تھا، ان کی روشنی میں سپریم کورٹ کے پاس اس معاملہ کو مزید ’موخر‘ کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلہ کے بارے میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’اس فیصلہ کے بعد ملاقات میں، میں نے جسٹس چوہدری سے کہا تھا کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ کچھ اور نہ بھی کرے تو بھی کافی ہے‘۔ نہ جانے چیف جسٹس کے اس تبصرہ کا کیا مقصد ہے۔ اس فیصلہ کا بڑا پن تو تب ثابت ہوتا اگر سپریم کورٹ یہ قرار دیتی کہ آئی ایس آئی نے یہ کام کرتے ہوئے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا تھا۔ اس لئے اس ادارے کی رہنمائی اور اصلاح کے لئے مناسب اقدامات کیے جائیں اور عدالت کو ان کے بارے میں مطلع کیا جائے۔
اوّل تو اصغر خان کیس میں سولہ برس کی طویل مدت کے بعد 2012 میں فیصلہ کیا گیا، جو بجائے خود سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والا معاملہ تھا۔ دوسرے اسے یوں بھی کوئی معرکتہ الآرا کارنامہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس میں ملوث اداروں کی بجائے دو افراد کو قصور وار قرار دے کر معاملہ کو ادارہ جاتی بتانے کی بجائے یہ کہا گیا ہے کہ یہ فعل ان دونوں جرنیلوں کا انفرادی کام تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ برائی کی نشاندہی کرنے کے مقصد میں لب بام سے ایک ہاتھ پیچھے رہ گئی تھی۔ کسی بڑے اور کم بڑے فیصلہ کا اگر کوئی معیار مقرر کیا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہاتھ بھر کا فاصلہ ہوتا ہے۔
اصغر خان کیس کو جمہوریت سے وابستگی کی مثال بنانے کی کوششیں اب بے مقصد اور ناکام ہیں۔ جب ملک میں اس مزاج کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ جب قومی معاملات اب تک پارلیمنٹ کی بجائے کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ جب سیاست میں اداروں کی مداخلت کا سلسلہ 1990 کے انتخابات میں مداخلت کے مقابلے میں کوسوں آگے بڑھ چکا ہے۔ جب فوج کے سربراہ اور ترجمان سیاسی بیان دیتے ہیں اور چیف جسٹس انتظامی معاملات میں ٹانگ اڑانے کو اپنا آئینی فرض قرار دیتے ہیں، تو اصغر خان کیس میں بال کی کھال اتارنے سے کیا حاصل ہوگا۔
سپریم کورٹ اور اس کے جواں ہمت مگر عنقریب سابق ہونے والے چیف جسٹس خاطرجمع رکھیں۔ اس ملک میں کسی جنرل کو سزا دینے کی روایت قائم کرنا ابھی تک ملک کے کسی ادارے کے اختیار میں نہیں۔ جمہوریت اب تک ان ہی سہاروں کی محتاج ہے جنہیں 1990 میں جنرل بیگ اور جنرل درانی نے یونس حبیب کی صورت میں دریافت کیا تھا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ