یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ حکومت اپنی متلون مزاجی، ناقص حکمت عملی اور کسی منصوبہ بندی و حکمت عملی کے بغیر بائیس کروڑ آبادی کے ا س ملک کو چلانے میں کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے۔ اور کب تک بے بنیاد نعروں کی بل بوتے پر عوامی مقبولیت کا بھرم قائم رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کا خواب دیکھنے والوں اور اس کی خواہش رکھنے والوں پر ایک بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ تحریک انصاف اور عمران خان اپنی تمام تر خوبیوں یا خرابیوں کے باوجود عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اگرچہ نشستوں کے اعتبار سے یہ کامیابی اتنی ہرگز نہیں تھی کہ عمران خان کو قومی اسمبلی میں قائد ایوان منتخب کروایا جاسکتا۔ حالانکہ انتخابات سے محض چند ہفتے پہلے تک ابن الوقت سیاست دانوں کا جم غفیر تحریک انصاف کی صفوں میں دھکیلا جارہا تھا۔ یہ منظر اہل پاکستان کے لئے چونکہ نیا نہیں تھا اس لئے کوئی اس پر حیران نہیں ہو ا۔ اور یہ دعوے زور پکڑنے لگے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں انہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو شروع سے پاکستان کے سیاسی معاملات کو ’مینیج‘ کرنا اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اس صورت حال پر اپوزیشن نے کچھ احتجاج بھی کیا اور تھوڑا شور مچانے کی کوشش بھی کی لیکن جلد ہی حالات ’معمول‘ پر آگئے۔ تحریک انصاف کو بھی نہایت سہولت سے ایسے حلیف میسر آگئے جن کے ووٹ لے کر عمران خان قائد ایوان منتخب ہونے کے قابل ہوئے۔ یوں ایک نیا پاکستان بنانے کے عظیم منصوبہ کا اعلان حقیقیت میں تبدیل ہوتا دکھائی دینے لگا۔ عمران خان اور ان کے رفقا اصرار سے یہ اعلان کرتے ہیں اور نئی حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی اور نئے پاکستان کی طرف ایک قدم قرار دینے میں کسی مبالغے اور غلط بیانی سے پرہیز کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
اس رویہ کی وجہ سے تحریک انصاف کے شدید حامیوں اور ’کور ووٹر‘ کی توقعات میں اضافہ نہ بھی ہوتا ہو، پھر بھی وہ یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ ابھی اس حکومت کو اقتدار سنبھالے چھے ماہ بھی نہیں ہوئے۔ دہائیوں کے بگڑے کام سدھارنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ موجودہ حکومت کی بے اعتدالیوں اور برسر اقتدار آنے کے طریقہ سے سخت اختلاف کرنے والوں کو بھی موجودہ حکومت سے مایوس ہونے کے باوجود اس نئی حکومت کوخود کو درست ثابت کرنے کا موقع تو دینا ہی پڑے گا۔
کسی بھی جمہوری نظام میں کسی پارٹی یا لیڈر کی غلطیاں خواہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں، جب تک اس کی مقبولیت اور عوامی ریٹنگ برقرار رہتی ہے، اس کے اقتدار کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اس کی سب سے موثر اور زندہ مثال ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لب و لہجہ، ٹویٹ پیغامات، ملنے جلنے کے طریقہ اور پالیسیوں سے اپنے مخالفین سمیت دنیا بھر کے لیڈروں کو ناراض اور مایوس کررہے ہیں۔
لیکن ان دو برسوں میں اس تمام تر برے رویہ کے باوجود وہ تیس فیصد کے لگ بھگ اپنی مقبولیت قائم رکھنے اور امریکن ووٹروں میں اپنے لئے پسندیدگی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض متنازعہ اور انتہائی سنگین اصولی معاملات میں بھی ری پبلیکن پارٹی کے لیڈروں کو درگزر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے سینیٹرز اور ایوان نمائیندگان کے ارکان ٹرمپ کی براہ راست مدد اور تعاون کے بغیر اپنی نشستیں جیتنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ اسی لئے ٹرمپ کو ریپبلیکن پارٹی میں قدرے ’آﺅٹ سائیڈر‘ سمجھنے اور اس قدامت پسند پارٹی کے بنیادی اصولوں سے گریز کے باوجود پارٹی کی مکمل سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ تائید و حمایت کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ٹرمپ اپنے ووٹروں کو رجھائے رکھنے میں کامیاب ہے۔
واضح ہونا چاہیے کہ امریکہ کے منہ زور اور طاقت ور میڈیا کا بڑا حصہ صدر ٹرمپ کا مخالف ہے۔ میڈیا کا یہ حصہ ٹرمپ کو نا اہل اور ناقابل اعتبار لیڈر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس میڈیا کو فیک نیوز کا نام دے کر اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے عوام سے براہ راست رابطہ قائم کرتے ہوئے اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے یہ کہنا بھی درست نہیں ہو سکتا کہ اگر کسی ملک کا میڈیا کسی لیڈر کے خلاف ہوجائے تو اس کا کام کرنا دو بھر ہو سکتا ہے۔
تاہم اختلاف اور تصادم کی اس صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کو جس بات نے مقبولیت برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ مدد دی ہے وہ امریکہ میں معاشی بہتری کے اشاریے ہیں۔ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح کئی برسوں کے بعد 4 فیصد سے کم ہو چکی ہے۔ قومی پیدا وار کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اس وقت 3، 4 فیصد ہے اور سال رواں کے دوران اس کے چار فیصد تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ افراط زر کی شرح دو فیصد سے کم ہو چکی ہے۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے عام باشندوں نے اپنی معیشت میں بہتری کے آثار محسوسکیے ہیں جس کا اثر گھریلو بجٹ اور سہولتوں پر مرتب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سخت تنقید اور بعض احمقانہ فیصلوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک مقبول ہے۔ اس کے مواخذے یا ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے بغاوت کی باتیں نقش بر آب ثابت ہورہی ہیں۔
پاکستان کے حالات اگرچہ امریکہ سے مختلف ہیں لیکن صدر ٹرمپ کی مقبولیت کے تسلسل سے اگر کوئی سبق سیکھا جاسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ جب تک عوام کی بڑی تعداد کسی حکومت کی حمایت جاری رکھے گی اور جب تک وزیر اعظم اپنے بنیادی حامیوں کو مطمئن اور خوش رکھنے میں کامیاب رہے گا، اس وقت تک اس کے اقتدار کو ان قوتوں کی طرف سے بھی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا جو بادشاہ گری کا کھیلنے کی ماہر ہیں اور لیڈروں کو بنانا یاگرانا جن کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔
یہ بادشاہ گری اسی وقت کام کرتی ہے جب کوئی لیڈر عوام میں اپنا ووٹر پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی امریکہ کے تجربہ سے جو دوسرا بنیادی سبق سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کوئی لیڈر اسی وقت تک مقبول رہ سکتا ہے جب تک وہ عام لوگوں کے لئے معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہ قیاس کرلینا کہ ’ایک پیج‘ پر رہنے کی حکمت عملی حکومت کو طاقت بخشنے کے لئے کافی ہوسکتی ہے، خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ایک پیج والے غیر مقبول ہوتے لیڈر کو بوجھ سمجھنے اور کسی نئے امید وار کو اس پیج پر لانے میں دیر نہیں کرتے۔
معاشی بہبود اور عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے البتہ نعرے اور دعوے کافی ثابت نہیں ہوسکتے۔ نہ ہی وزیر خزانہ کا یہ اعلان قابل غور ہوسکتا ہے کہ حکومت نے جو معاشی اقداماتکیے ہیں، ان کا بوجھ صرف ملک کے امیر طبقہ پر پڑا ہے، غریب صارفین اس سے بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ نرم سے نرم الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھی اس دعویٰ کو غلط کہا جائے گا۔ ملک میں براہ راست ٹیکس وصول کرنے کا کوئی نیا طریقہ یا حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔
حکومت نے جو محاصل عائدکیے ہیں، وہ بالآخر عام صارفین یعنی اس ملک کے غریب لوگوں کو ہی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ کیوں کہ صنعتکار ہو یا تاجر، وہ حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کو عوام تک منتقل کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوگی تو اس کا ان گھروں کو تو فائدہ ہوگا جن کا چولہا بیرون ملک سے ترسیلات کی وجہ سے چلتا ہے لیکن ملک کی اکثریت کا گھریلو بجٹ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ہی دگرگوں ہونے لگتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اگر فوری اقدامات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس کے وزیر بے بنیاد اور گم راہ کن بیانات کے ذریعے مالی بحران کے ستائے ہوئے لوگوں کو مزید مشتعل کرنے کا سامان نہ کریں۔ وزیر خزانہ اور ان کے رفقا کو علم ہونا چاہیے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے مالی دباﺅ کا شکار صرف ان کے مخالفین نہیں بنتے بلکہ ان لوگوں پر بھی اس کا اثر مرتب ہوتا ہے جو تحریک انصاف کے جلسوں کی رونق بڑھاتے رہے ہیں اور جنہوں نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے قصے عام کرنے میں تحریک انصاف کی قیادت کا ساتھ دیا ہے۔
عمران خان سے جذباتی وابستگی کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن جب ان کی قیادت میں قائم حکومت مسلسل عام شہری کی مالی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتی رہے گی تو یہ بوجھ باقی سب وابستگیوں پر حاوی ہونے لگے گا۔ اس لئے عمران خان اور ان کے ساتھی اگر مخالف سیاسی پارٹیوں کو رگیدنے اور لوٹ کا مال واپس لانے کے نعرے بیچنے سے وقت نکال کر معاشی استحکام کے لئے پالیسی سازی کرسکیں تو خود ان کی اپنی سیاسی صحت کے لئے بہتر ہوگا۔
ملک کے معتبر اور باخبر صحافی اور تجزیہ نگار ’ان ہاﺅس تبدیلی‘ اور اپوزیشن لیڈروں کے لئے نام نہاد این آر او کی خبریں سامنے لا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے طاقت کے مراکز میں اس قسم کے نکات پر دماغ سوزی کی جاتی ہو۔ لیکن ایسی کوئی تجویز نہ ملک کے لئے بہتر ہو گی اور نہ ہی جمہوریت کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔ عمران خان اس وقت تک چہیتے رہیں گے جب تک ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ یہ مقبولیت کسی این آر او سے کم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایوان میں ان کے خلاف ’بغاوت‘ کے ذریعے تحریک انصاف کے ووٹر کو مایوس کیاجاسکے گا۔
اس لئے حکمران جماعت کو بھی ایسی خبروں پر بدحواس ہو کر ان کے رد میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے، عوام کو مطمئن رکھنے اور ان کی سہولت کے لئے اقدامات پر زور دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے اب سیاسی ہتھکنڈوں کی بجائے حکومت کے وزرا کو پروفیشنل منتظمین اور ماہرین کی طرح معاملات حکومت و معیشت بہتر کرنے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
منتخب حکومت خواہ کسی بھی طریقہ سے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہو، اس کی کامیابی دراصل عوام کی کامیابی ہے۔ یہی اصل جمہوریت ہے۔ کسی منتخب حکومت کو گرانے کی جلدی میں جمہوری عمل کو پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت کاتسلسل ہی دراصل جمہوریت کی کامیابی ہے۔ اپوزیشن کے علاوہ حکمران جماعت کو بھی اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ ورنہ پیش آنے والی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک عنصر پر عائد نہیں کی جاسکے گی۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ