بھارتی حکومت کی اطلاعات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی قافلے پر حملہ کے بعد دو بار اپنے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوول سے فون پر بات کی ہے۔ اور یہ واضح کیا ہے کہ امریکہ دہشت گرد حملہ کے بعد بھارت کے حق دفاع کو تسلیم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اگر پاکستان پر پلوامہ حملہ کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف کسی قسم کی عسکری کارروائی کرتا ہے تو امریکہ اس کی مذمت نہیں کرے گا بلکہ اسے درست اقدام قرار دیاجائے گا۔
اگرچہ امریکی ذرائع سے جان بولٹن اور اجیت ڈوول کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی لیکن امریکی وزیر خارجہ نے جمعرات کو پلوامہ حملہ کے بعد ایک ٹویٹ پیغام میں کہا تھا کہ ’ہم بھارت کے ساتھ ہیں جو دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے۔ پاکستان کو عالمی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے‘ ۔ اگر بھارتی ذرائع سے سامنے آنے والے جان بولٹن کے بیان کو امریکی وزیر خارجہ کے پیغام کی روشنی میں پڑھا جائے تو اس میں غلط بیانی یا مبالغہ کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اس طرح عسکری لحاظ سے پاکستان اس وقت سنگین اور تشویشناک صورت حال کا سامنا کررہا ہے۔
موجودہ کشیدہ صورت حال میں امریکہ نے جس طرح اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا ہے، اس سے برصغیر میں جنگ کے بادل گہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پلوامہ حملہ کے بعد وہائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ نے بھی ایک ہی نوعیت کے سخت بیان جاریکیے ہیں جنہیں بھارتی مؤقف کی سو فیصد حمایت کا اعلان کہا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے علاقوں میں دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کرے اور پلوامہ حملہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور پال جونز نے بھی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی ہے جس میں پلوامہ سانحہ کے حوالے سے پاکستانی حکومت کو سخت پیغام پہنچایا گیا ہے۔ اگرچہ اس پیغام کی نوعیت کے بارے میں دونوں حکومتوں کی طرف سے کوئی واضح بات نہیں کی گئی۔
اس امریکی طرز عمل سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ بے خوفی سے پاکستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔ پلوامہ حملہ اور اس میں کثیر تعداد میں پیرا ملٹری فورس کے جوانوں کی ہلاکت کی صورت میں یوں بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی انتخابی مہم کے لئے ایک مؤثر اور طاقت ور ہتھیار ہاتھ آ گیا ہے۔ مہا راشٹر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’میں نے کل بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ ان جوانوں کی قربانی ضائع نہیں جائے گی۔ دہشت گرد کہیں بھی چھپنے کی کوشش کریں انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔ سکیورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ وہ ملک جو دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر ہے، وہ دہشت گردی کا استعارہ بن چکا ہے‘ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’پلوامہ حملے کا جواب کیسے دینا ہے؟ کب دینا ہے؟ کہاں دینا ہے؟ کس طرح دینا ہے؟ اس کا فیصلہ ہماری فوج کرے گی۔ آپ صبروتحمل سے کام لیں‘ ۔
ایک سانحہ کے بعد کوئی شواہد سامنے آئے بغیر اور کسی قسم کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے اس قسم کے دھمکی آمیز اور سخت بیانات سے بھارتی حکومت کے ارادوں کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس حملہ کے بعد جموں میں احتجاج کے نام پر مسلمانوں پر حملےکیے گئے ہیں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بھارت کے متعدد دوسرے شہروں میں بھی پاکستان کے خلاف مظاہرےکیے گئے ہیں اور صورت حال اس قدر اشتعال انگیز ہے کہ ان علاقوں میں آباد کشمیری عوام کو اپنی سلامتی کے بارے میں اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔ متعدد کشمیری لیڈروں نے جن میں سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی شامل ہیں، بھارتی حکومت سے ملک کے مختلف حصوں میں آباد کشمیریوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم مودی سرکار عوامی سطح پر اس اشتعال کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی کی کوشش کر سکتی ہے۔
بھارتی میڈیا نے پلوامہ حملہ کے بعد بعض بنیادی نوعیت کے سوال اٹھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی اور وہ اس وقت بیک زبان بھارتی جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی زبان بول رہا ہے اور پاکستان کے خلاف شدت سے الزام تراشی کی جارہی ہے جس سے عوامی اشتعال میں اضافہ ہوگا۔
کسی نے نہ تو یہ پوچھا ہے کہ اڑھائی ہزار پیرا ملٹری فورس کا قافلہ ایک حساس علاقے سے گزر رہا تھا لیکن اس کی حفاظت کے لئے بنیادی نوعیت کے اقدام بھی کیوں نہیںکیے گئے۔ خود کش حملہ آور آسانی سے اس فوجی قافلے کو اوورٹیک کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس دوران اس نے بارود سے بھری ہوئی کار دو بسوں میں دے ماری جس سے اب تک 46 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں میں اضافہ کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کیوں کہ متعدد زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ اسی طرح کسی نے یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ اس سول کار میں تین سو کلو کے قریب بارود بھرا ہؤا تھا اور یہ کار عام شاہراہ پر آسانی سے سفر کر رہی تھی۔ کیا یہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے کہ وہ اس بارود کی فراہمی اور ترسیل کے حوالے سے معلومات حاصل نہیں کر سکی۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری عوامی احتجاج اور کشمیریوں کی بے چینی کے بارے میں سوال کرنے کا حوصلہ اور ضرورت تو کسی بھی بھارتی میڈیا کو محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ پوری شدت سے حکومت اور انتہا پسند گروہوں کی اشتعال انگیزی کا حصہ بن کر سیکولر بھارت کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی لئے کسی بھارتی مبصر یا صحافی نے یہ سوال بھی نہیں کیا کہ بھارت نے حملہ کے فوراً بعد پاکستان پر اس دہشت گردی کا الزام عائد کر دیا۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نزاکت اور حساسیت کا تقاضا تھا کہ اس کی مکمل تحقیقات کی جاتیں اور ماہرین کو موقع پر پہنچ کر فورنزک اور دیگر شواہد کے ذریعے سانحہ کی مکمل تصویر بنانے کا موقع دیا جاتا۔ لیکن تحقیقاتی ٹیم کے پلوامہ پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان پر الزام تراشی سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت کسی قیمت پر اس حملہ کو سیاسی لحاظ سے استعمال کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
حملہ کے فوری بعد جیش محمد کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے صورت حال خراب ہوئی ہے اور پروپیگنڈا کا ایک مؤثر ہتھیار بھارتی حکومت اور میڈیا کے ہاتھ آگیا۔ حکومت کے دعوؤں اور جیش محمد کے اعتراف کی بنیاد پر بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف اشتعال کا ایک ایسا طوفان برپا کیا گیا ہے کہ متوازن گفتگو اور دلیل اور حجت کا رویہ اختیار کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
مودی حکومت اس صورت حال کو اچھال کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے ملک کے انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ اس مقصد سے حکومت نے تمام پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بھی منعقد کیا ہے اور فی الوقت پلوامہ یا پاکستان کے حوالے سے متبادل بیانیہ سننے کو نہیں ملتا۔ بھارتی وزیر اعظم خود انتقام لینے کا اعلان کررہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات خراب کرنے سے لے کر، اس کے خلاف سفارتی کوششیں تیز کی گئی ہیں۔ امریکہ کی غیر متوازن پالیسی اور مکمل حمایت کے سبب بھارتی حکومت کا حوصلہ مزید بلند ہؤا ہے۔
اس پس منظر میں مودی حکومت کے لئے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی عسکری کارروائی کا خطرہ شدید ہوچکا ہے۔ مودی نے انتقام لینے کا اعلان کرتے ہوئے جس طرح عوام کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے، اس سے یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ بھارت مناسب عسکری حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے وقت لینے کے علاوہ سفارتی لحاظ سے مناسب موقع کا انتظار کررہا ہے۔ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان اتوار کو دو روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ جہاں سے وہ بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے دورہ پر جائیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ بھارتی حکومت کسی قسم کی مہم جوئی کے لئے سعودی ولی عہد کا دورہ بر صغیر مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہو۔
اس دوران پاکستان اور بھارت دونوں نے سفارتی مہم تیز کی ہے۔ ان رابطوں کے دوران اگر مفاہمت اور عقل کے ناخن لینے کی کوئی صورت سامنے نہ آئی تو مشتعل کیے گئے عوام کی تشفی کے لئے بھارتی حکومت کو کسی ’عملی اقدام‘ کی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ اس قسم کا ایڈونچر خطے میں قیام امن کی کوششوں کے لئے شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن ہوش کی بجائے جوش اور طویل المدت بین الملکی مفاد کی بجائے وقتی سیاسی فائدہ کے لئے کام کرنے والی حکومت سے کوئی بھی حماقت متوقع ہے۔
اس پس منظر میں اس بات کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت ویسی ہی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کرے جس کا اعلان بھارتی فوج اور حکومت نے اڑی حملہ کے بعد 2016 کے اواخر میں کیا تھا۔ پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا لیکن بھارتی حکومت اب بھی اس پر اصرار کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس بار بھارت واقعی کسی سرجیکل اسٹرائیک کا قصد کرے اور اس مقصد کے لئے اسے امریکہ کی ’ٹیکٹیکل‘ حمایت بھی حاصل ہو۔
دونوں ملک گزشتہ برس دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ اس کے تحت وہ ایک دوسرے کی عسکری مواصلاتی سہولتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اب امریکہ پلوامہ حملہ کے کے حوالے سے ’بھارت کا دفاع کرنے کا حق‘ تسلیم کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ سوال ہے کیا باہمی معاہدے کے تحت امریکہ اپنے سیٹلائیٹ جاسوسی نظام کے ذریعے پاکستان کے خلاف کسی سرجیکل اسٹرائیک کے لئے بھارتی فوج کو فنی امداد فراہم کرے گا؟
اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے اس قسم کی کوئی مذموم کوشش ہوتی ہے تو پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کے پاس ایسی ٹیکنیکل صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دشمن کا حملہ روک سکے یا پاکستان بھی اس کے جواب میں کارروائی کر کے حساب برابر کرے گا۔ 2011 میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے جو کارروائی کی تھی، پاکستانی افواج اسے روکنے میں ناکام رہی تھیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے کی طرح اسے بھارتی پروپیگنڈا قرار دے کر پاکستانی عوام کو مطمئن کردیا جائے۔ اس طرح دونوں ملک اپنے اپنے عوام کو اپنی کہانی سنا کر خوش کرتے رہیں۔
پاکستان کے پاس البتہ یہ آپشن موجود ہے کہ وہ اپنے ملک میں جیش محمد کی زیر نگرانی قیادت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر کے دہشت گردی اور سرحد پار عسکریت پسندی کو مسترد کرنے کی پالیسی کا دستاویزی ثبوت فراہم کر دے۔ یوں بھی اس وقت اگر پاکستان کی سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے اور بھارت سے مفاہمت کا آپشن ہی دونوں کا مقصود ہے تو یہی وقت ہے کہ انتہا پسند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کیا جائے۔ اس لحاظ سے ترپ کا پتہ اب بھی پاکستان کے پاس ہے۔ یہی پاکستان کے بہترین مفاد میں بھی ہو گا۔ اس طرح برصغیر کی فضا پر چھائے ہوئے مسلح تصادم کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور اس خطے کے غریب عوام مزید مشکل اور صعوبت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ