وزیر اعظم عمران خان نے مدیران اور سینئر صحافیوں سے ملاقات میں قومی معاملات پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے لیکن ان کے لب و لہجہ کی تندی سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ وزارت عظمی کی ذمہ داریوں نے انہیں زبان پر قابو رکھتے ہوئے، درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے اقدمات پر مائل کیا ہے۔ اس گفتگو میں دیگر باتوں کے علاوہ وزیر اعظم نے ملکی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے، معاشی صورت حال کی بہتری کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا ہے۔
تاہم وہ ابھی تک اپنی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا واضح روڈ میپ دینے میں ناکام ہیں۔ ان کے وزیر خزانہ معاشی معاملات سے زیادہ سیاسی امور پر زور بیان صرف کرکے ملکی منظر نامہ میں اپنی جگہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں جبکہ وزیر اعظم نے معاشی مسائل کو ملک کا سب سے اہم اور مشکل مسئلہ قرار دیتے ہوئے ماضی کی حکومتوں پر لعن طعن کرنا بدستور ضروری سمجھا ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے زر مبادلہ کے ذخائر ختم کردیے تھے اور ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ لاد دیا تھا۔ حیرت ہے کہ اسی سانس میں وہ نہایت فخر سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے لئے گئے قرضوں کو اپنی حکومت کا اعزاز قرار دے کر اس بات کی داد چاہتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح ملک کو آئی ایم ایف کی ’شیطانی‘ شرائط سے محفوظ رکھا۔ اور دوست ملکوں سے قرض لے کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ البتہ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ دوست ملکوں سے قرضے ملکی معاشی بوجھ میں جو اضافہ کریں گے، وہ سابقہ حکومتوں کی طرف سے لئے گئے قرضوں کے مقابلے میں کیوں کر مختلف ہوگا۔ اور ان کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں ہونے والے اضافے کو تقدیس و تکریم کا کون سا لبادہ پہنایا جائے گا۔
وزیر خزانہ اسد عمر یکے بعد دیگرے مالیاتی بل منظور کرواکے حکومت کے اخراجات پورے کررہے ہیں۔ بیرونی قرضوں کے علاوہ مقامی طور پر جو قرضے لئے جارہے ہیں ان کی تفصیلات سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو اپنی اس کج روی کا بھی کوئی احساس نہیں کہ ایک طرف وہ آئی ایم ایف کی برائیاں کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو دوسری طرف حکومت مسلسل آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لے کر ملکی معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط کے مطابق قرضے فراہم کرتے ہیں۔ خاص طور سے آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنا ہوتا ہے کہ جس ملک کو قرضہ دیا جائے وہ ملکی معیشت کے احیا اور ریاست کی آمدنی میں اضافہ کے لئے مؤثر اقدامات کر سکے تاکہ دی جانے والی رقم بھی واپس وصول ہو اور اس ملک کی معیشت بھی پہلے سے بہتر ہو سکے۔ اب عمران خان نے دوست ملکوں کی مہربانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کی نازیبا اور غیر ضروری شرائط کا ذکر کیا ہے جسے موجودہ حکومت کی ’حکمت عملی‘ کے سبب مسترد کردیا گیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اب چونکہ پاکستان کا خزانہ بھر چکا ہے، اس لئے آئی ایم ایف بھی اپنی شرائط نرم کررہا ہے۔
وزیر اعظم کی یہ باتیں صورت حال کی درست تصویر پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر وہ ان شرائط کی تفصیل بتاتے جو شروع میں آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی جارہی تھیں اور ان میں تحریک انصاف کی حکومت کی مہارت اور مستعدی کی وجہ سے کون سی خاص تبدیلیاں کی گئی ہیں، تو عام لوگوں کو بات بہتر طریقے سے سمجھ آسکتی ہے۔ ورنہ معاشی معاملات کے گورکھ دھندے کو سیاسی نعرہ بناکر عمران خان کو ہیرو کے درجے پر فائز کرنے والوں کو تو مطمئن کیا جاسکتا ہے لیکن ملک کی معاشی صحت کے بارے میں یہ کوئی اچھوتی اور خوشگوار خبر نہیں۔
یوں بھی عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کوئی بات عوام سے نہیں چھپائیں گے بلکہ انہیں ہر معاملہ پر اعتماد میں لیں گے۔ وقفے وقفے سے مختلف معاملات پر قوم سے ویڈیو پیغام کے ذریعے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے عوام سے رابطہ رکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن قوم سے خطاب یا بالواسطہ ذرائع سے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے عمران خان کی باتیں عام لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرنے کی بجائے نئے سوالوں کو جنم دیتی ہیں۔ ان سوالوں کے جواب بعد میں مختلف ذرائع سے سامنے آتے رہتے ہیں اور حکومت ان کی تصدیق یا تردید نہ کرکے بے یقینی کو برقرار رکھتی ہے۔
اقتصادی اصول کے حوالے سے یہ بے یقینی ختم کرنا ہی معاشی احیا کے لئے بنیادی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر عمران خان مدیروں اور صحافیوں سے ملاقات میں قومی پیداواری اشاریوں کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کرتے، گزشتہ سات ماہ کے دوران ملک میں ہونے والی نئی سرمایہ کاری کا حوالہ دیتے یا یہ بتاتے کہ اس حکومت کے اقدامات کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں کتنا اضافہ ہؤا ہے اور اب قومی آمدنی کس حد تک ملک کے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہو رہی ہے تو تفہیم کی بہتر صرت پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن وزیر اعظم اب تک ملک کے چیف ایگزیکٹو کی بجائے تحریک انصاف کے چئیرمین کے طور پر ہی بات کرنے کے عادی ہیں۔
ملکی معیشت کو لاحق سب سے بڑا خطرہ قومی آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ ہے۔ ان دونوں حوالوں سے حکومت سیاسی نعروں سے زیادہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی حکومت سے کسی معجزے کی امید نہیں کرنی چاہیے۔ عمران خان کی اپنی رائے، اور ذات کے حوالے سے نرگسیت پسندی کے باوجود ہر معقول شخص موجودہ حکومت کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے لیکن تبدیلی کی دعویدار قیادت سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ معیشت جیسے معاملہ کو سیاسی نعرہ بنانے کے ساتھ کبھی اعداد و شمار کے ساتھ حقیقت احوال سے بھی قوم کو آگاہ کرے۔
صرف ماضی کی حکومتوں پر الزام تراشی یا بچت کے دعوؤں سے قومی خسارہ کا جن قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔ قومی اخراجات میں کمی کے لئے وزارتوں کے اخراجات اور اسمبلی ارکان کی مراعات کو پرانی شرح پر برقرار رکھ کر کوئی بڑا ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے قومی پیداوار میں اضافہ ہی واحد حل ہے۔ زیادہ لوگوں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنا ضروری ہے اور غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی کرکے انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی کارکردگی حکومت کے سات ماہ میں یکے بعد دیگرے نظر ثانی شدہ مالیاتی بل منظور کروانے سے ہی واضح ہوجاتی ہے۔
وزیر اعظم نے اس پریس ملاقات میں تین ہفتے میں قوم کو بڑی خوش خبری دینے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس خوش خبری کا پورا حلیہ بھی بیا ن کردیا۔ وزیر اعظم نے بتایا ہے کہ ایکسن موبل کنسورشیم پاکستانی سمندری حدود میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے جو کوششیں کررہا ہے، اس کے بارآور ہونے کے امکانات ہیں۔ عمران خان نے بتایا کہ تین ہفتوں میں اس بارے میں ٹھوس معلومات سامنے آئیں گی اور اگر پاکستانی حدود میں تیل و گیس کے ممکنہ وسیع ذخائر دریافت ہوگئے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ وزیر اعظم کی یہ خوش فہمی درست بھی ثابت ہوجائے تو بھی انہیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہوگی کہ صرف تیل نکلنے سے کسی ملک کی تقدیر بدلنا یقینی نہیں ہوسکتا۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں تیل کے متبادل تلاش کرنے کا کام زور شور سے جاری ہے تاکہ تیل پر معیشت کا انحصار کم کرکے معاشی استحکام بھی حاصل کیا جاسکے اور ماحولیات کو تیل کے استعمال سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مہلک اثرات سے بھی بچایا جاسکے۔ اسی لئے تیل پیدا کرنے والے اہم عرب ممالک بھی اب متبادل معاشی وسائل حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔ اس کے باوجود تیل انرجی کا اہم ذریعہ ہے اور ملک میں اگر اس قدر تیل بھی پیدا ہونے لگے کہ قومی ضرورتیں پوری ہوسکیں تو اس کا ملکی معیشت پر مثبت اثر مرتب ہوگا۔ اس طرح پاکستان تیل کی درآمدات پر صرف ہونے والا کثیر زر مبادلہ بچا سکے گا یا ادھار تیل کے بدلے عرب ملکوں کو سفارتی و سیاسی مراعات دینے پر مجبور نہیں ہوگا۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تیل دریافت ہونے اور اس کے فوائد حاصل کرنے میں ایک دہائی کی مدت بیت سکتی ہے۔
کسی ملک کے معاشی وسائل صرف اسی وقت سود مند ثابت ہوسکتے ہیں جب اس کا نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہو۔ بصورت دیگر نائیجیریا اور وینزویلا کے علاوہ عراق اور ایران جیسے ملکوں کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں جو داخلی بحران کی وجہ سے تیل سے حاصل ہونے والے کثیر وسائل کو بھی عوام کی ضرورتیں پوری کرنے اور انہیں سہولت فراہم کرنے کے لئے استعمال نہیں کرسکے۔ پاکستان یوں بھی 22 کروڑ آبادی کا بڑا ملک ہے۔ کسی بھی مقدار میں دستیاب ہونے والا تیل اور گیس اس کی معیشت میں صرف اسی وقت کوئی ڈرامائی کردار ادا کرسکے گا اگر ملک کے اندر انتشار اور بے یقینی کو ختم کیا جاسکے گا۔ ملک میں سیاسی لیڈروں کی کردار کشی، پارلیمانی نظام کے بارے میں پیدا کی جانے والی بے یقینی اور آزادی اظہار پر عائد پابندیوں کی وجہ سے، حالات بدستور دگرگوں ہیں اور ملک کے سیاسی استحکام اور نظام کے بارے میں نت نئے خدشات سامنے آرہے ہیں۔
ان خدشات میں سب سے بڑا اندیشہ ملک میں پھیلنے والی انتہا پسندی اور ایسے گروہوں کی موجودگی ہے جو قومی مفاد کے حصول کے لئے کھڑےکیے گئے تھے لیکن اب قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے بلاشبہ اپنی گفتگو میں قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن صرف مولانا فضل الرحمان پر نکتہ چینی کرنے سے انتہا پسندی ختم کرنے اور مذہب کی مثبت اور روشن خیال تفہیم کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
ملک کے موجودہ حالات کو ماضی کی غلطیوں کے ذریعے سمجھنے یا سمجھانے کی بجائے حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے حکمت عملی سامنے لائے۔ تاکہ انتہا پسندی کے خلاف موجودہ حکومت کی نیک نیتی پر پوری دنیا یقین کرسکے۔ تب ہی ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہوگا اور معاشی احیا کے بنیادی کام کی طرف پر توجہ مبذول ہو سکے گی۔
حال ہی میں بھارت کے ساتھ تصادم کی صورت حال میں حکومت کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ قول و فعل کے تضادات ملکوں کو کس طرح بے توقیر کرتے ہیں اور ان کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ عمران خان بھی اگر بھارت کے ساتھ تعلقات کو صرف نریندر مودی کی انتخابی مہم کے تناظر میں دیکھنے پر اصرار کرنے کی بجائے بڑی تصویر کو سمجھنے کی کوشش کرسکیں، تب ہی وہ ملک کی پر امن مستقبل کی طرف رہنمائی کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ