پوری دنیا میں مادری زبان کا عالمی دن پوری دنیا میں جوش و خروش سے منایا گیا ۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں تقریبات ہوئیں ۔ سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ تمام زبانوں کو ترقی ملنی چاہئے اور ابتدائی تعلیم ماں بولی میں ہونی چاہئے ۔ اخبارات کے ساتھ ساتھ ریڈیو ٹیلیویژن نے بھی خصوصی پروگرام نشر کئے ۔ سرائیکی وسیب میں کوئی شہر ایسا نہیں جہاں تقریبات نہ ہوئی ہوں ۔ ملتان میں جھوک سرائیکی میں سرائیکی ماں بولی کا مشاعرہ منعقد ہوا۔ سرائیکستان صوبہ محاذ کی طرف سے دیرہ اڈہ سے ملتان پریس کلب تک امن ریلی کا اہتمام کیا گیا، قیادت سرائیکستان صوبہ محاذ کے چیئرمین خواجہ غلام فرید کوریجہ ،شریک چیئرمین راقم الحروف کے ساتھ ساتھ دوسرے رہنماؤں نے کی ۔ اس تقریب میں شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ معروف سرائیکی دانشور و ماہر تعلیم پروفیسر اکرم میرانی ، پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی ، ڈاکٹر خالد اقبال ، شریف خان لاشاری ، رانا ذیشان نون ، پروفیسر الطاف ڈاہراور دوسروں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے ۔ ابتدائی تعلیم ماں بولی میں دی جائے اور ماں بولی کی ترقی کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ اس کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان، بہاولپور ، دھریجہ نگر، لیاقت پور ، دیرہ غاز یخان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ تقریبات میں رہنماؤں نے اس بات کی طرف خصوصی اشارہ کیا کہ انگریزوں نے اپنی ماں بولی کو تو ترقی دی اور پوری دنیا میں انگریزی کا راج ہے لیکن جن علاقوں پر قبضہ کیا تو وہاں کی مقامی زبان اور ثقافت کا گلا گھونٹ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں بولیاں ترقی نہ کر سکیں ۔ سرائیکی رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے 1849 ء میں جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نے اردو کو پروان چڑھایا کہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، اردو کو پروان چڑھانے کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں کو پتہ تھا کہ اردو کا اپنا کوئی خطہ یا اپنا کوئی جغرافیہ نہیں، اس زبان سے کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے گی جس سے اسے خطرہ ہو، انگریزوں نے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت سر سید احمد خان جیسے حامیوں کے ذریعے اردو کو پروان چڑھانے کا کام لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انگریز اردو کو پروان چڑھانے کا کام کر رہا تھا تو کچھ ایماندار افسر اپنی دیانتدارانہ رائے بھی دے رہے تھے کہ اصل حق ماں بولیوں کا ہے اور ان کی ترقی اور تعلیم کے ذریعے خواندگی کی شرح میں اضافے کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر شاہ پور (حالیہ سرگودھا) میجر ولسن کے نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی باتیں ’’پنجاب میں اردو ‘‘ نامی کتاب میں شائع ہو چکی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ماں بولیاں انسان کو انسان بناتی ہیں اور اگر آپ کسی شخص کو ان کی ماں بولیوں اور ان کے تہذیبی ورثے سے محروم کریں گے تو پھر یونہی سمجھئے انسانی زندگی کی مشینری انسان نہیں روبوٹ چلا رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروں میں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوں نہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عملاس کے برعکس ہو رہا ہے۔ حملہ آور حکمرانوں کے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، مغلوںنے فارسی کو مسلط کیا، انگریزوں نے 1849ء میں قبضہ کیا تو اس نے فارسی کو رخصت کرنے کے لئے اردو کو نافذ کیا اور ساتھ ہی انگریزی کو بھی آگے بڑھاتا رہا، انگریز نے ماسوا سندھی باقی تمام زبانوں کا سر کچلا، اسے زبانوں و ثقافتوں کی طاقت اور قوت کا مکمل ادراک تھا۔ اسے علم تھا زبان و ثقافت سے قوم بنتی ہے اور پھر جب قوم اپنے وسیب ، اپنے خطے اور اپنی ماں دھرتی کے دفاع کیلئے باہر آتی ہیں تو پھر حملہ آور بدیسی حکمران نیست و نابود ہو جاتے ہیں، اس لئے انگریز نے قوموں کا وجود ہی نہ بننے دیا۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں ، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج کرے گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ حکمرانوں کو یہ تو یاد ہے کہ اردو پڑھائی جائے کہ یہ قومی زبان ہے، انگریزی پڑھائی جائے کہ اردو اعلیٰ تعلیم اور دفتری امور کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ، عربی پڑھائی جائے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، فارسی کو بھی ختم نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے برصغیر پر ہزار سال حکومت کی۔ اگر حکمرانوں کو یاد نہیں تو یہ کہ ماں دھرتی کی بولیاں اور زبانیں جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں، کا بھی کوئی حق ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوں کو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر لسانی تعصب کیا ہوگا؟ میں واضح بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی قومی زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ حکومت ماروی میمن بل کی منظوری دے اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ