بری طرح گھبرائے ہوئے وزیر اعظم عوام کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ وہی عوام، جن کے ساہیوال میں بے گناہ مارے جانے اور سڑکوں پہ اپنے پیاروں کے جسد خاکی لیے بیٹھے رہنے کے باوجود، وزیر اعظم صاحب ان کی مدد کو نہ گئے۔ کیونکہ تب راجا باسک ان کے تخت کے نیچے براج رہے تھے اور ان کے کندھے پہ اقتدار کا ہما سایہ فگن تھا۔
فی الحال چونکہ خان صاحب خود ہی وزیر اعظم ہیں اور وہ اپوزیشن کی اس کھلی بدمعاشی کے خلاف اپنے لڑکوں کو احتجاج کی کال دے رہے ہیں تو ہاکیاں گھر رکھ کے آنے کا کہا ہے۔ گو حامد میر صاحب کے ذرائع کچھ اور کہتے ہیں۔ چند ہی گھنٹے تو رہ گئے ہیں سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
دو ہزار اٹھارہ میں جب وزیراعظم نے حلف اٹھایا تھا تو تب سے ہی وہ فروئیڈین سلپ آف ٹنگ کا شکار نظر آئے۔ ’یوم قیامت‘ کو ’یوم قیادت‘ پڑھتے ہوئے جیسی جھینپی جھینپی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پہ آئی تھی ویسی ہی الہڑ ادا سے انھوں نے امریکہ سے آئے کسی خط کا ذکر کیا اور فوراً ہی مکر گئے کہ نہیں نہیں امریکہ نہیں کسی ملک سے میسج آئی۔
ایک تو وزیر اعظم دنیا کے جمیل ترین انسانوں میں سے ہیں اس پہ یہ ادائیں ، کس کا دل چاہتا ہو گا کہ ان کو ہٹا کے کسی کافوری سر والے خشک انسان کو وزیر اعظم بنا دے لیکن کیا کریں، لانے والوں کا جی ہی اوبھ گیا۔
ملکہ حسن کے لیے جو مقابلہ منعقد ہوتا ہے، اس میں امیدواروں کو ایک تقریر بھی کرنا ہوتی ہے گویا ‘میں تیرا حسن، تیرے حسن بیاں تک دیکھوں‘ یہاں یہ لوگ چوک گئے۔
وہی کپتان جو شرمیلا اور کم گو مشہور تھا جب کنٹینر پہ چڑھا تو اوئے توئے اور ابے تبے کا وہ طوفان لایا کہ ’پارلیمانی زبان‘ اور ’سیاسی گفتگو‘ کی اصطلاحیں ہی ذہن سے محو ہو گئیں۔
وزیر اعظم بننے کے بعد بھی منھ سے پھول جھڑنے کا سلسلہ ختم نہ ہوا بلکہ پوری کابینہ ہی یہ شغل فرمانے لگی۔ باقی رہے امورِ مملکت تو جو پچھلے ستر پچھتر سال سے چلا رہے ہیں چلاتے رہے۔ بقول شخصے ملک ’آٹو پائلٹ‘ پہ لگا رہا۔
اسی بد زبانی کی کتاب کے آخری باب میں بطور مقطع کا بند، شہباز گل صاحب نے لسانیات کی ایک گتھی کھولی اور بتایا کہ کراچی والے قحبہ کو رنڈی کہتے ہیں جبکہ پنجاب میں بیوہ کو رنڈی کہا جاتا ہے۔
یہ تو ہوئی گورننس اور ملک کا انتظام و انصرام۔ رہ گئی بات بین الاقوامی سازش کی یا یہ کہ فوج اپوزیشن کا پیغام لائی تھی یا یہ کہ کل صبح کوئی رنگ کا پتہ کھیلا جائے گا تو بھیا اب تو بقول منٹو، ساری تاش کی گڈی ہی ہاتھ سے پھسل گئی ہے۔
نہ الیکٹ ایبلز ہی کسی کے سگے ہوتے ہیں اور نہ ہی اتحادی، یہ سیاست کا وہ موٹا سا سبق ہے جو نظریاتی سیاست کرنے والے پہلے دن ہی سمجھ جاتے ہیں۔ مگر یہاں تو صرف ایک ضد تھی، وزیر اعظم بننا ہے اور اب راج ہٹ ہے کہ وزیر اعظم ہی رہنا ہے۔ جن سازشوں کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ سازشیں ہی عالمی سیاست کہلاتی ہیں۔
آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب ارنے بھینسے کی طرح لگی فصل کو روندنا نہیں ہوتا۔ آزاد خارجہ پالیسی بنانے والے ایلکٹ ایبلز اور ایک پیج کی سیاست بھی نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ جنھوں نے بھٹو کو پھانسی دی وہی بے نظیر کو پہلی مرتبہ لائے وہی نواز شریف کو لائے، وہی پھر بے نظیر کو لائے، وہی پھر نواز شریف کو لائے، وہی بے نظیر کے قتل میں ملوث تھے، وہی یوسف رضا گیلانی کو لائے، وہی ایک بار پھر نواز شریف کو لائے ،وہی عمران خان کو لائے اور اب وہی شہباز شریف کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ہی تبدیلی ہے یہ ہی انقلاب ہے روک سکو تو روک لو۔
مختصر ترین الفاظ میں پاکستان کی قریباً ہر حکومت ہی کٹھ پتلی تھی اور ہے۔ بس اتنا ہے کہ اپنے بڑھئی سے بھاگنے والا پناکیو جب جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ناک مزید لمبی ہو جاتی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ