ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 2017ءنے ایک رپورٹ جاری کی۔دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 117 بتایا گیا۔2012ءکی رپورٹ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کا نمبر 174 میں سے 139 واں تھا، یوں یہ قدرے بہتری کا تناسب تھا۔ مگر پھر بھی پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے اور اس کی بڑی وجوہات آمریت اور جمہوریت کا کھیل یعنی سیاسی عدم استحکام، انصاف کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر1973ءکی وہ قومیائی اکانومی پالیسی ہے کہ جس نے پاکستان کے اداروں میں سرکاری عمل دخل کو آسان بنا دیا۔ بیوروکریسی نے جب 22 نومبر1954ءکو چار صوبے ملا کر مشرقی اور مغربی پاکستان میں تفریق شروع کی تو پنجاب کے اشرافیہ میں مشرقی پاکستان کے مقابلے کرپشن کی وبا پھوٹ پڑی۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ تفریق کسی طور بعد میں ملک کے توڑنے کا باعث بھی بنی۔ایوب خان کے دور میں پاکستان کے تمام سرمایہ دار ادارے نجکاری کے طور پر چل رہے تھے اور پاکستانی عوام بھٹو کے سوشلسٹ نعرے سے واقف نہیں تھے۔ بھٹو نے 1973ءمیں آتے ہی نیشنالائیزیشن کی پالیسی کا آغاز کیا، اس پالیسی کو قومیائی اکانومی پلاننگ کا نام بھی دیا گیا۔ اس میں بائیس خاندان جو ملک کے بڑے سرمائے دار تھے اور بڑے قومی اداروں کو نجی حیثیت سے چلا رہے تھے، مختلف الزامات کی زد میں لائے گئے اور مقصد یہ حاصل کیا گیا کہ سرکار چند خاندانوں کی مالیاتی اجارہ داری ختم کرکے اداروں کو اپنے کنٹرول میں کرلے اور پیسہ چند خاندانوں تک جمع نہ رہے۔ نجی انٹرپرائیزز پر یہ سرکاری مکمل کنٹرول کی جامع حکمت عملی تھی۔ بڑے بڑے سرمایہ دار جہاں کنگال ہوگئے وہیں بڑے بڑے سرمایہ کار یاں تو ملک میں آتے آتے رک گئے یاں یہاں سے بھاگ گئے۔ آپ تاریخ اٹھائیں تو اندازہ ہوگا کہ آج کی جے آئی ٹی میں پائے جانے والے بڑے بڑے کرپشن سکینڈلز کے روابط ،کسی طور اس پالیسی میں موجود نقائص سے ملتے ہیں کہ جہاں قومی اداروں کی بھاگ دوڑ میں سیاسی مداخلت کو دعوت دے دی گئی۔ بھٹو عام آدمی کو طاقتور بنانا چاہتے تھے، نیت صاف تھی، مگر جو ہوا،اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔یہ سرکاری مداخلت یا کنٹرول ، بڑے بڑے ادارے ان سیاسی کارندوں کے حوالے کرنے کا ذریعہ بن گیا جن کو سرکاری حمایت حاصل تھی، یوں بڑے بڑے قرضے لینا، ان کو معاف کرالینا، رقم خرد برد کردینا، حتی کے ہنڈی اور بلیک منی جیسی روایات کا آغاز وہیں سے ہوگیا۔ ضیاءکی حکومت آئی ،یہ پلا ن مکمل فیل ہوچکا تھا اور پاکستان انڈسٹریل کریڈت اور انوسمنٹ کارپوریشن کے ذریعے اداروں کی واجبی نجکاری کے عمل کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سوائے دو تین انڈسٹریز کے مکمل ناکام ہوگئی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی سمیت جو بھی حکومت آئی ، اداروں کی نجکاری کی حامی رہی ، مگر سیاسی مداخلت، بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کی اداروں کی خرید و فروخت ان کو نجی طور پر لینے کے عمل نے بیش بہا کرپشن کے دروازے کھولے رکھے اور کبھی سدھار نہ آیا۔2012ءمیں ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2008-2013ءتک پاکستانی قومی خزانے کا 94 بلین ڈالر ، کرپشن ، ٹیکس چوری اور ناقص گورنس کی نظر ہوگیا۔ مشرف دور حکومت میں میڈیا طاقت ور ہوا اور 2004ءمیں فیس بک کے آنے کے بعد، سوشل میڈیا نے سب کچھ بے نقاب کردیا۔ جوں جوں میڈیا طاقت پکڑتا گیا، سکینڈل منظر عام پر آتے رہے اور یوں رینٹل پاور پلانٹ، حج کرپشن، اوگرا، نیٹو کنٹینرز کیس، پاکستان سٹیل مل، NICL ، ایفریڈین کیس، میڈیا گیٹ سکینڈل ، یہ سب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے نقاب ہوتا رہا۔ کرپشن کے خلاف نعرے بلند کرنے والی سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف 2013ءکے دھرنے کے بعد قومی لوٹی دولت واپس لاﺅ کا نعرہ لگا کر، شدت کے ساتھ سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئی، پھر پانامہ کیس، جے آئی ٹی کی رپورٹس، نیب عدالتوں نے سب عوام کے سامنے رکھ دیا اور یوں بڑے بڑے اشرافیہ سلاخوں کے پیچھے جاتے دکھائی دینے لگے۔ حیران کن طور میں ان سب کی اکثریت ،اداروں کی مالیاتی کرپشن میں ملوث پائی گئی اور یہ سب کسی نہ کسی طور طاقتور سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ براہ راست سابق سرکاری ایوانوں کا حصہ تھے۔ ہنڈی کے ساتھ، ایک ماڈل کا کئی کڑوڑ باہر لے جاتے پکڑے جانے اور کئی طور سے لوٹی رقم ملک سے باہر لے جانے کے شواہد ملنے سے کرپشن کے طویل سلسلوں کی فہرست سامنے آنے لگی۔
حال ہی میں سندھ میں مالیاتی کرپشن کی تفصیلات سامنے آئیں تو وہی پرانی یاد تازہ ہوگئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ہولناک کرپشن کے انکشافات کا ذکر ہے جس میں بینک کی تشکیل سمیت، شوگر ملز کو انتہائی سستے داموں نجکاری کے حوالے کرنا ،ان کو انڈسٹری کی بحالی کے نام پر کثیر قرضے دینا اور رقوم کا جعلی اکاﺅنٹس میں منتقل ہوجانا تک شامل ہے۔ انہیں قرضوں کو 59 بار تک Re-schedule تک کیا جاتا رہا ہے۔ کس طرح رقم کو ان اکاوئنٹس میں ڈالا جاتا رہا جو مردہ لوگوں کے نام پر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ سارا ریکارڈ یاں تو جلا دیا گیا تھا یا یو ایس بی سے ڈیٹا اڑا دیا گیا تھا۔ یہ سب ابھی ابتدائی انکوائری ہے، جو کہ غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے، مگر اگر سچ ہے تو یقینا یادِ ماضی عذاب ہے یا رب کے مصداق شدید تشویش ناک ہے۔ بارہ بجنے کو تھے راقم القلم 2019ءکی آمد کا جشن دیکھنے دنیا کے خوبصورت ترین درالخلافہ میں باہر نکلا تو سڑک کنارے دس گیارہ سال کا ایک بچہ سخت ترین سردی میں قمیض کے بغیر ،اپنے بے لباس دو تین سال کے چھوٹے بھائی کو چمٹا ہوا ایک فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ دونوں سخت بھوکے تھے۔ اتنے میں آسمان پر آتش بازی کا بہترین مظاہرہ شروع ہوگیا۔ یہ 2019ءکی آمد کا جشن تھا۔جب پورے شہر میں نئے سال کے جشن میں آسمان پر آتش برس رہی تھی وہیں زمیں کے کسی ویران کونے میں ایک ادھ ننگا بے لباس جسم دوسرے کو چمٹا اس حرارت کو زمین پر اتارنے کی جہد میں تھا۔ میرے لیے یہ دنیا کے سب سے خوبصورت دارلخلافہ کہلائے جانے والے غریب ملک کا امیر شہر تھا۔ امارت کی جو خوبصورتی آسمان پر تھی ، اس کی غربت کا بدصورت رقص زمین پرمجھے اداس کرنے لگا۔ ایک گونج یہ کہتی سنائی دی کہ جہاں طبل بجتے ہیں ، وہاں سناٹوں کا شور زیادہ وحشت طاری کردیتا ہے۔ آسمان پر سب بدل گیا ، زمیں کا نہ سال بدلا نہ ماہ بدلا اور نہ ہی دن۔اگر بدلا تو کئی دہائیوں پر مشتمل کرپشن اور لوٹ مار کا وہ ریکارڈ بدلا کہ جس سے ایسے کئی بدن مزید بے لباس اور بھوکے ہوجائیں گے۔ بائیس خاندانوں کی اشرافیہ سرمایہ کاری سے سرکار نے جو اداروں کو اپنی تحویل میں لے کر عوام کا بنانے کا سوشلسٹ تجربہ کیا وہ سیاسی مداخلت سے Nepotism ، یعنی اپنوںکو نوازنے کی روش میں نجانے اس زہر کو کتنا زیادہ پھیلا گیا۔ جو کرپشن کنٹرول تھی، وہ پاکستانی سیاست کی ہوا ملنے سے ہر جگہ پھیل گئی۔ جو جمہوریت کا نعرہ لگا کر آیا اس نے آمر بن کر لوٹ مار کی اور جو آمر بن کر آیا اس نے جمہوریت کے نام پر یہ سلسلے جاری رکھے۔ بائیس ،دو تین سو میں بدل گیا، ملکی خزانہ لٹتا رہا، ریاست کمزور ہوگئی اور کرپٹ مافیا اس قدر طاقتور ہوگیا کہ حکومتیں بنانے اور گرانے تک میں اپنا اثر رکھنے لگا۔ ملک سے سرمایہ کار بھاگ گیا، بجلی، گیس، پانی ختم ہوگیا، آبادی کا جن جہالت کی آڑ میں اور تناور ہوگیا، وسائل محدود ہوتے چلے گئے، تعلیم اور روزگار ناپید ہوگیا اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہوگیا۔ معاشی برابری کا جو نعرہ اکانومی کیnationalization کی آڑ میں لگایا گیا،اس کا فرق صاف واضح تھا، ایک طرف آسمان پر رات کی تاریکی میں بھی اتنی آگ تھی کہ سب روشن تھا، اور دوسری طرف سخت سردی میں بے لباس، بھوک سے بلبلاتے بچے ، اس روشنی میں بھی اندھیر نگری کے مسافر تھے۔وہ اندھیر نگری جہاں سب لوٹ لیا جاتا ہے، نوچ لیا جاتا ہے۔ ان کا لباس، ان کی تعلیم،روزگار،صحت ، قومی تشخص، حتی کہ زندگی کی آخری سانس بھی۔ ہم بطور قوم اخلاقی،معاشی،معاشرتی اور انسانی کرپشن کے کس درجے پر فائز ہیں،اس کا جواب دینا مشکل نہیں ، پھر چاہے ہم 2019 ءمیں بھی خود کو سندھی، پنجابی،بلوچ، پٹھان جو مرضی کہہ لیں، جیسا مرضی جشن منا لیں ہم رہیں گے وہی جو دہائیوں پر مشتمل ہماری کرپشن زدہ اصل ہے،اندھیر نگری میں مزید اندھیر ڈالتی ،دھول،اور کیا؟