ساہیوال کے قریب پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کی فائرنگ سے ایک بچی اور ایک خاتون سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس بارے میں سی ٹی ڈی کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے، وہ نقائص سے بھرپور ہے۔ اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے بچے اور عینی شاہدین نے واقعہ کے بارے میں جو تفصیلات بتائی ہیں وہ بھی پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کی رپورٹ کے برعکس ہیں۔ ان بیانات میں واضح طور سے کہا گیا ہے کہ کار کے مسافروں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی لیکن سی ٹی ڈی کی ٹیم نے فائرنگ کر کے مسافروں کو ہلاک و زخمی کر دیا۔ اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے بچوں کے بارے میں بھی متضاد اور افسوسناک رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق انہیں ایک قریبی پیٹرول پمپ پر بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ تاہم خبر پھیلنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے واپس آکر انہیں ہسپتال پہنچانے کا اہتمام کیا۔ پولیس اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی روشنی میں صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس انتہائی المناک سانحہ کی تہ تک پہنچنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ لیکن اگر معصوم بچوں کے سامنے والدین اور بہن کے قتل جیسے گھناو¿نے جرم کو تحقیقاتی رپورٹوں اور محکمانہ کارروائی جیسے جھنجھٹ میں ڈال کر نمٹنے کی کوشش کی گئی تو پولیس کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت پر بھی لوگوں کے اعتماد کو شدید ضعف پہنچے گا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پنجاب پولیس کے یونٹ کی طرف سے اس سانحہ کی جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس کے مطابق کار میں سوار ’دہشت گردوں ‘ نے پولیس کی طرف سے کار کو رکنے کا اشارہ کرنے پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں کار میں سوار دو مرد، ایک خاتون اور 13 سال کی ایک بچی ہلاک ہو گئی۔ جبکہ دو بچے زخمی ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر پولیس کے مطابق وہ کار روک کر تلاشی لینے اور مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنا چاہتی تھی لیکن اچانک فائرنگ سے کار میں سوار چار افراد جان سے گئے۔ سی ٹی ڈی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مرنے والے اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔ اس سانحہ میں دہشت گردی کے خلاف پولیس یونٹ کا کوئی اہلکار زخمی نہیں ہو¿ا حالانکہ پولیس کا بیان ہے کہ فائرنگ کا آغاز کار میں سوار ’دہشت گردوں‘ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پولیس کا یہ بیان بھی شبہات میں اضافہ کرتا ہے کہ مرنے والے خود اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ گویا پولیس کو دیکھ کر مسافروں نے گرفتاری سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ یہ بیان مضحکہ خیز اور پولیس کے اس رویہ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ جس نظام کے تحت شہریوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتی ہے، وہی اس کی حفاظت کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے اپنے طور پر اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ پنجاب پولیس کے آئی جی نے فوری طور پر جے آئی ٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ہے جس میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی شامل کئے گئے ہیں اور اسے تین روز کے اندر رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ تاہم ملک میں ماضی میں قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومتوں کے رویہ کو دیکھتے ہوئے اس جے آئی ٹی سے بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پولیس شواہد کو مٹانے، گواہوں کو ہراساں کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی شہرت بھی رکھتی ہے اور ماضی میں اس قسم کی متعدد مجرمانہ کارروائیوں کا حصہ بھی بنتی رہی ہے۔ جے آئی ٹی بہرحال انہی لوگوں کے بیان پر بھروسہ کرے گی جو اس واقعہ میں ملوث تھے اور انہی گواہوں کو قابل اعتبار سمجھا جائے گا جنہیں پولیس کی طرف سے ’تیار‘ کر کے پیش کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ملک کی سیاسی قیادت پر خاص طور سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس سانحہ کے بارے میں رپورٹ طلب کر کے اور افسوس کا اظہار کر کے وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔
اس المناک سانحہ کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے بیانات البتہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے طور پر بیان بازی سے آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کے ترجمان کسی بھی طرح پولیس کے مو¿قف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے سی ٹی ڈی کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ دہشت گردوں نے انسانی ڈھال استعمال کی۔ تاہم پنجاب حکومت ساہیوال واقعے پر تفصیلی بات کرے گی‘۔ جبکہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ ہم ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ اصرار کرنا ضروری سمجھا کہ’ سی ٹی ڈی نے یہ کارروائی مشتبہ افراد کے خلاف حساس اداروں کی رپورٹ پر کی تھی۔ یہ رپورٹ کراچی میں گرفتار کیے گئے دہشت گرد کی نشاندہی پر تیار کی گئی تھی‘۔ گویا یہ دونوں سیاسی لیڈر شہریوں کے احتجاج اور ان پر ہونے والے ظلم کو خاطر میں لانے کی بجائے یہ اصرار کر رہے ہیں کہ پولیس کے بیان پر یقین کر کے اس واقعہ کو بھلا دیا جائے۔ اس صورت میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے رپورٹ طلب کرنے اور آئی جی پنجاب کے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کرنے کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔
پنجاب کے محکمہ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی خفیہ اداروں کی رپورٹ پر کی گئی تھی۔ جب کار کو روکا گیا تو اس میں سفر کرنے والے مبینہ دہشت گردوں نے بدحواس ہو کر فائرنگ کردی اور وہ خود ہی اپنی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔ اس کے برعکس اس سانحہ میں مرنے والے ایک شخص کا کم سن بیٹا، جو خود اس سانحہ میں زخمی ہو¿ا ہے، بتا رہا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ ، بہنوں اور والد کے ایک دوست کے ہمراہ لاہور سے بورے والا ایک شادی میں شرکت کے لئے جا رہا تھا کہ ’پولیس نے گاڑی روکی۔ اس کے والد نے پولیس سے کہا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے لے لے لیکن گولی نہ مارے لیکن پولیس نے فائرنگ کر دی‘۔ اس بیان کو اگر عینی شاہدوں کے بیانات کی بنیاد پر سامنے آنے والی ان رپورٹوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے جن میں کہا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی کی پارٹی نے شادی میں جانے والے ان مسافروں کی گاڑی روکی، ان سے زیورات اور نقد رقم لوٹی اور اپنا جرم چھپانے کے لئے فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔ اگر ان خبروں میں ذرہ برابر بھی صداقت ہے تو پولیس کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ثابت ہوگا کہ یہ لوگ داعش کے دہشت گرد تھے اور خود کش جیکٹوں اور بھاری اسلحہ اور بارود کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ پولیس مقابلہ کے بعد کار سے یہ سب کچھ برآمد بھی کر لیا گیا۔
سی ٹی ڈی نے اس واقعہ میں ملوث جس گاڑی کی تصاویر جاری کی ہیں وہ ایک چھوٹی سوزوکی کار ہے۔ پولیس کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس میں سات مسافروں کے علاوہ کثیر مقدار میں اسلحہ و بارود بھی موجود تھا۔ پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ دہشت گرد پولیس کنٹرول سے بچنے کے لئے اپنے اہل خاندان کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ پولیس کی یہ وضاحت بھی اس وقت تک قبول نہیں کی جاسکتی جب تک اس بات کے ٹھوس ثبوت فراہم نہ کئے جائیں کہ کار میں واقعی وہی لوگ سوار تھےجنہیں انٹیلی جنس رپورٹ میں دہشت گرد کہا گیا تھا یا مرنے والوں کا تعلق دہشت گرد گروہ سے تھا۔ صرف پولیس کے بیان پر کسی شہری کو دہشت گرد قرار دینا اور تسلیم کرلینا ملک کو پولیس اسٹیٹ میں بدلنے کے مترادف ہو گا۔ مرنے والے خاندان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ خاندان کا سربراہ دوکاندار تھا اور اپنے خاندان اور دوست کے ساتھ شادی میں جا رہا تھا۔
دہشت گردی کے ستائے ہوئے پاکستان میں پولیس اور امن و امان نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو وسیع اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔ تاہم حکومت کی طرف سے مسلسل یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دی جا چکی ہے۔ ایسی صورت میں شہری اگرچہ دہشت گردوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں اور اپنے اداروں کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر پولیس غنڈہ گردی اور لوٹ مار کا بازار گرم کرتی ہے تو اسے بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومتوں کو ساہیوال سانحہ کے بعد اسی چیلنج کا سامنا ہے۔
اگر فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کے بیانات کو حکومت کی حکمت عملی مانا جائے تو شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ اس نئی حکومت نے بھی انہیں اسی فرسودہ نظام اور اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جن سے نجات دلانے کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ