سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر اور معروف ترقی پسند دانشور ارشاد تونسوی اللہ کو پیارے ہوگئے۔موت کا ذائقہ تو سبھی کو چکھنا ہے۔
عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جب یہ کہتا کہ ”میانوالی دور تے نہیں“ تو تم ہمیشہ یاد آتے اور میرا جی چاہتا پکار پکا ر کر کہوں کہ ”ملتان تونسہ توں دور تاں نہیں“مگر تم تک اپنی آواز نہ پہنچا سکا،ویسے معاف کرنا تونسے والے سارے بے رحمی کی حدتک بے مروت رہے ہوکہ دیدار کو آنکھیں تھکا دیتے ہو۔جب سے گول باغ گلگشت ملتان کی رونقیں لٹیں سب کچھ ہی تاراج ہوگیا۔سید علمدار بخاری نے تمہاری یاد کے زخم کریدتے ہوئے کتنے ہی سوئے ہوئے زخم جگا دیئے،ارشاد تونسوی کاش! تم نے ابھی آخرت کا سامان سفر نہ باندھا ہوتا تو ہماری یادوں کے زخم یوں اچانک بیدار نہ ہوجاتے اور شمیم عارف والا زخم تو ابھی بھرا ہی نہیں تھا۔
اتنا مرنجاں مرنج انسان،بامروت اور سلیقہ مند دانشور،حساس اور رقیق القلب ایسا کہ ایک روز حبیب فائق کا ذکر ہوا تو آنسوؤں کی جھڑی لگادی اور مصدق سانول کی یاد تو ہم سب کی روح کے چولے کو تارتارکرجاتی ہے۔تم بچھڑنے والے بھی عجیب تھے کہ محفلوں کو بے رونق کرکے موت کی وادی میں جا مقیم ہوئے،مگر ہمارے دلوں
سے رخصت نہیں ہوئے،آج ہم سب دوردراز شہروں میں بستے ہیں مگر یادوں کا شہرتو ایک ہی ہے،سب ہی نے جانا ہے
فیض صاحب نے کہا تھا
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیاہے
فیض بھی یہ پروانہ ہاتھ میں لئے چپکے سے رخصت ہوگئے تھے،جیسے تم،ارشاد تونسوی! تم نے بہت سالوں سے اپنی خیر خبر نہیں دی تھی۔میں تمہاری محبت اور سلوک میں گندھی شاعری کا دلدادہ ہوں،مگر اس پر قلم اٹھانا سوئے ادب گردانتا ہوں،یہ کام ناقدین ادب کا ہے،کسی مہاندرے شاعر کا ادبی مقام متعین کریں۔ مجھے تو اسی دن ارشاد تونسوی نے گھائل کردیاتھاجس دن اپنی نظم بھیجی تھی
خشیاں وی کوئی لاچی دانڑیں ہن
جہڑے ونج درباریں منگوں
خشیاں تاں صندل دا بوٹا
جہڑا نانگیں پلے
صرف تم نہیں،سارا سرائیکی وسیب اسی”نانگیں پلے بوٹے“کی چھاؤں میں جی رہا ہے،تم نے بھی وسیب کے باسیوں کے حقوق کی لمبی جنگ لڑی اور اس جنگ کی جیت ہار کے میدان میں ہمیں چھوڑ کر چل دیئے،اب علمدار بخاری ہو یا ڈاکٹر اظہر علی سب ہی فکر معاش کے منحوس چکر میں دوریوں کے دشت ناپ رہے ہیں،مگر یہ سہولت تو حاصل ہے کہ فیس بک پرروز ہی ان کے دمکتے چہرے نظر آجاتے ہیں،رفعت عباس جب سے سرائیکی وسیب کا غلام فرید ثانی بننے کے واہمے میں مبتلا ہوا ہے،فنا فِل فن ہوگیا ہے،ارشاد امین گو لاہور میں بیٹھا ہے مگر دوست احباب کی خیر کی خبریں دیتا ہی رہتا ہے،مگرارشاد تونسوی کی مفارقت کی خبر شاید اس لئے نہیں دے سکا کہ خود کو سنبھال رہا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر علمدار بخاری نے فیس بک پر عمدہ مضمون پوسٹ کیا مگر اس میں بہت سارے اضافوں کی ضرورت ہے اور یہ ان کا شعبہ بھی ہے کہ جدید تنقیدی ادب لکھنے والوں کی پہلی صف میں ان کا شمار ہوتا ہے،بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی سنٹر کے چیئرمین رہے،ان کی نگرانی میں سرائیکی پر بہت سا کام ہوا اور خالد اقبال نے بھی اس حوالے سے قلیل عرصے میں مقدور بھر کام کیا اب پروفیسر ڈاکٹر ممتاز خان کلیانی کے زیر سرپرستی سرائیکی شعبہ سرائیکی ادب کے فروغ کے لئے کوشاں ہے ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ بہتری کے اسباب پیداکریں گے۔
حبیب فائق،مصدق سانول کوبچھڑے پانچ سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا یقیناََ سرائیکی شعبے نے ان پر کام کیا ہوگا مگر میری کوتاہی کہ نظر سے نہیں گزرا (کہ علمدار شاہ صاحب کے بعدکسی نے یاد بھی تو نہیں کیا)اور نہ ہی سرائیکی شعبہ کے اساتذہ نے ایسے کسی کام کی خبر دی ہے،نہ داعیٗ اجل ہونے والوں کی یاد میں کسی تقریب کا اہتمام کیا،ڈاکٹر مہر عبدالحق پر تھیسس تو ہوئے مگر ان کی یاد منانے کا تردد نہیں کیا گیا۔اس حوالے سے سرائیکی سنٹر پر بہت سارے قرض ہیں،مگر اب تک کوئی ایک ادھار چکانے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔کاش کوئی دوست ایسی کسی ترجیح کو حرز جاں بنائے کہ سرائیکی کے جدید ادب پر کوئی مستندو معتبر کام کرنا ہے۔
اب ارشاد تونسوی بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے کہ ان کے فکروفن پر سنجیدہ کام کیا جائے کہ مرحوم سرائیکی وسیب کے نامور شاعر ہی نہیں ایک ترقی پسند دانشور بھی تھے،اپنے وسیب کے مجبورو مقہور لوگوں کے حق میں اٹھنے والی ایک توانا آواز
ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی اقداروروایات کے حقیقی اور سچے نمائیندہ تھے۔انہوں نے تیسری دنیا کے بے کس اور بے بس عوام کے حقوق پر چونکا دینے والی نظمیں لکھیں۔وہ ایک خاص علاقائی زبان کے شاعر ہونے کے باوجود آفاقی موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے اور نا آسودہ طبقات اپنے وسیب کے ہوں،اپنے ملک کے یا کسی بھی خطے کے ان کے دکھوں کو اپنا دکھ تصورکرتے تھے۔حق جہاں دیکھ لیا چوم لیا ان کی حیات کا منشور تھا۔وہ سرائیکی کے صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کی شاعری میں پائے جانے والی محبت ورواداری کے مٹ جانے والے کرب کو روح کی گہرائی سے محسوس کرتے تھے۔
ان کا وصف یہ تھا کہ ترقی پسند دانشور اور شاعر ہونے کے باوجود خود پر کسی مخصوص فکرو فلسفے کی چھاپ نہیں لگنے دی۔