کسی کام کے آغاز پرہی غلطی کا شکار ہونا ایسے ہے جیسے عمارت کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی ہو ۔ کپتان سے یہی تو ہوا ہے جس کی یہ تعذیر ہے کہ کچھ سیدھا نہیں ہورہا اور اگر ہوبھی رہا ہے تو دکھائی نہیں دے رہا تو پھر اس میں غریب عوام کا کیا قصور ہے ،جن کے سر پر پے در پے کبھی بجلی اور کبھی پٹرول کے بم گرائے جارہے ہیں ، اس کے ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات کیاسب کچھ ہی مہنگا ہوجاتا ہے اورجو نانِ جویں کو ترس رہے ہیں وہ اور بھی خجل ہوکے رہ جاتے ہیں کہ انہیں افتادگان خاک نے توکپتان کو یہ میدان پیش کیا کہ اپنے جارحانہ چھکوں سے عدل وانصاف کے دشمنوں اور قوی دستوں کو بے دست و پا کردے ،وہ جو سماجی عدل کے حصول کے راستے میں دیوار کھڑی ہے ،اپنی تیز ترین بیٹنگ سے اسے اڑا کے رکھ دے ۔مگر معلوم ہوا یہ سب خواب تھا اور خوابوں کے بارے تو شاعر پہلے ہی کہہ چکا کہ
تمام خواب تو تعبیر بھی نہیں رکھتے
برا کیا ہے جو کسی نے یہ خواہش کی
معروف برطانوی مورخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہا تھا ’’ سود مند فکری انقلابی لینن اور رابس پیرے کی زندگی سے یہ سبق لیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں بے لوث انسان تھے ،جنہوں نے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے خلوص اور تندہی سے خود کو وقف کردیا تھا لیکن انہوں نے یہ سمجھنے میں (اخلاقی کے ساتھ فکری) غلطی کی تھی کہ ان کے مقاصد اتنے احسن تھے اور ان کا حصول اتنا اہم تھا کہ اس کے لئے تشدد کا رویہ اپنایا،نتیجتاً ایک جنت ارضی کی تخلیق کی بجائے رابس پیرے نے دہشت گردی کی اور لینن نے کلیت پسند حکومت قائم کی‘‘۔
عمران خان ان دونوں سے بھی ڈھیر سارے قدم آگے نکل گئے ،انہوں نے ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر فسطائی طرز فکر کی انتہا پسندانہ مثال قائم کی ۔اپنے گرد ایسے ایسے لوگوں کا حصار کھڑا کرلیاجو والی مدینہﷺ توکیا لینن اور رابس پیرے کے فکری علمبردار ثابت ہوئے۔ریاستِ مدینہ تو محبت واخوت ،ہمدردی اور بھائی چارے کا گہوارہ تھی مگر عمران خان کی راجدھانی تو منافقتوں اور شقاوتوں کا گڑھ ہے ۔پوری ریاست کو ایک ایسی قتل گاہ بنا دیا گیا ہے جہاں چاروں اور خوناب مناظر ہیں۔عدل وانصاف کا خون ،تہذیبی و جمہوری اقدار کا خون ،مزدوروں کسانوں اور متوسط طبقے کے زن و مرد کے جذبات و احساسات کا خون ،یہاں تک کہ دین و مذہب کے بنیادی عقائد کا خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے ۔
کوئی پاک وطن کی نظریاتی اساس کا ماتم کرتا ہے اور کوئی ختم نبوتﷺ پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی بڑھتی ہوئی قوت پر نوحہ کناں ہے۔ یہ سب واہمے اور وسوسے پہلے تو کبھی لاحق نہیں ہوتے تھے ،ہاں ایک جمہوریت ہے جو پہلے بھی خطرے کی سان پر چڑھی رہتی تھی اور آج بھی مبتلائے آلام ہے ،مال کی حرص سبھی کو ہے اعمال کی فکر کسی کو نہیں ۔پہلے بھی ارکان پارلیمنٹ بکتے تھے آج بھی منڈی میں ان کی بولیاں لگی ہیں ۔یہ کون سی تبدیلی ہے جس کے خدوخال اتنے بھیانک ہیں کہ دہلائے دیتے ہیں ۔
یہ گلے شکوے والیان ِ ریاست ہی سے نہیں ،ان سے بھی ہیں جو اقتدار کے رن سے باہر کھڑے مرثیہ خوانی کر رہے ہیں کہ وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں ،ان ہی کا بویا ہوا ہم عوام کاٹ رہے ہیں ،انہوں نے بھی اپنے ہر منصوبے کی عمارت کی پہلی اینٹ ٹیڑھی ہی رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ ہر سوُ بربادیوں کے نوشتے پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
وہ جو کہتے تھے ’’ہم تجھے گنجِ دوعالم سے گراں پاتے ہیں ‘‘ کس کس نے ان کے خوابوں کی دھجیاں نہیں بکھیریں ،دوعالم کے اس خزانے کو گلیوں کا روڑا کوڑا بنانے میں کس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا ۔گزشتہ سال ہم کرپشن کے ایک سو بیسویں درجے پر تھے اب ہوس زر نے ہمیں تین درجے اور گر ادیا ہے ۔ تبدیلی سرکار کا یہ ثمر ہے تو جو تبدیلی کی بات ہی نہیں کرتے وہ کس مقام پر ہمیں جا کھڑا کریں گے ۔اس نشیمن میں لگی بدعنوانی کی آگ کو کون بجھائے گا ؟ یہاں تو فرشتوں کی کوششیں بھی رائیگاں گئی ہیں ،وہ بھی اپنے دامن پر بد نما داغ لئے آسودہ خاک ہوئے یا در بدر اور وہ جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے پائوں تلے پر بچھائے ہوئے ہیں یا اس کے سر پر سایہ فگن ہیں،انہوں نے آخرکو کس موڑ پرلاکھڑاکرناہے ۔
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر دل کی لوح پر ایسی سیاہی سے رقم ہے جو کبھی روشنائی نہیں بننے والی کہ جس سے اس ملک کی خوش نصیبی کا نوشتہء تقدیر لکھاجاسکے ۔ہاں مگر یہ امر پتھر پر لکیر ہے کہ قوت اور تصرف کی ناروا خواہش جتنی بھی شدید ہو آخر اسے اپنی موت مرنا ہی ہوتاہے بھلے اس کے پیچھے اسباب کے جتنے بھی انبار ہوں ،گو اسی امید پر جیتے ہمیں سو سال ہونے کو ہیں وہ جو فیض صاحب نے کہاتھا۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
ان کی بقاء کو لاحق خطرات ایک نہ ایک دن انہیں بھی تو پیچھے مڑکر دیکھنے پر مجبور کریں گے ہی جنہوں نے ہمیں مجبورو بے بس بنایا ہوا ہے کہ شعور کی گہرائیوں سے انسانوں کی مکمل اصلاح لازمی ہے جو کبھی کبھی فطرت خود ہی نافذکردیتی ہے ۔
اسی یقین پر دنیا قائم ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے فطرت اپنے تقاضے توپورے کرتی ہی رہے گی۔انشاء اللہ
فیس بک کمینٹ