میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ جناب احمد فراز کو آنے والے وقت کی سخت کوشیوں اور چیرہ دستیوں کا کیا کمال ادراک تھا، کہ ایسا غیر معمولی شعر کہہ دیا۔ جو دور حاضر کے حالات کا ترجمان بن گیا، دراصل حقیقت حال اس سے کچھ مختلف ہے بھی نہیں، کہ خود غرضی، مطلب پرستی، منافقت، ریاکاری، بے حسی و بربریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے، جس کا جہاں جس پر داؤ چل رہا ہے چلا رہا ہے، مطلب براری کی خاطر اپنے پرائے کی تفریق مٹا دی گئی ہے، یہاں تک کہ خونی رشتوں کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ جان لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اولاد والدین کو اور بھائی بھائی کو محض اپنی ذاتی غرض کی خاطر مار دیتے ہیں۔
جھوٹ فریب، ریاکاری، دھوکہ اور منافقت اپنی شکلیں بدل کر معاشرے کا معیار اور قاعدہ بن چکے ہیں، اور آج لوگ عمومی طور پر ان برائیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنے لگے ہیں اور اسے ذہانت، ہنر مندی، حاضر دماغی اور سمجھداری مانتے ہیں۔ اور جو جتنا بڑا دھوکہ باز و چالباز ہے وہ اتنا ہی کامیاب مانا اور سراہا جاتا ہے۔
زمانے کی اس بدلتی روش نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے، کیونکہ نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ املاک، لوگوں نے ہر ناجائز کو خود پر جائز کرلیا ہے۔ لہذا حلال حرام کی تمیز ہی مٹ گئی ہے اور ظلم و ناانصافی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، کوئی اپنے کئے پر شرمندہ نہیں، دلوں پر برائی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ آنکھوں کو غرض نے اندھا کیا ہوا ہے۔ دماغ صرف برائی کے تانے بانے ہی بنتا ہے۔ اب تو زندگی گلزار صاحب کے شعر:
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے ؟
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟
کی مصداق ہو کر رہ گئی ہے۔ لوگ اتنا فریب کھا چکے ہیں کہ اب ایک دوسرے پر اعتبار کم ہی کرتے ہیں۔ خوانچہ فروش سے لیکر صنعتکار تک، پڑوسی سے لیکر عام اجنبی راہ گیر تک سب ہی جہاں موقع ملے چونا لگا جاتے ہیں، راہ و رسم بھی غرض و مطلب کی دلیل بن کر رہ گئے ہیں، نتیجۃً لوگ عمومی طور پر تناؤ اور بے یقینی کا شکار رہنے لگے ہیں، خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر ہر وقت نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اور مختلف بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں، اگر ہم اپنے اردگر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ ہر شخص کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے بالخصوص زیابیطس (Diabetes) اور بلند فشار خون (High Blood Pressure)، جدید تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ان بیماریوں کی عموما ً وجوہات مستقل ذہنی دباؤ یا تناؤ میں رہنا بھی ہوسکتا ہے، لوگ طرح طرح کے جسمانی و نفسیاتی آزار میں مبتلا ہو رہے ہیں، محض اس وجہ سے کہ معاشرے کا چلن لوگوں کیلئے سازگار اور خوشگوار نہیں ہے۔ ساتھ ساتھ نئی نئی وبائیں رہی سہی کسر پوری کئے دے رہی ہیں۔ مگر قدرت کی اپنی ہی ایک ترتیب ہے، جس میں ہر کمال کو ذوال ہے، اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے بالکل اسی طرح کوئی بھی مجرم ہمیشہ کامیاب اور عز ت دار نہیں رہ سکتا اور ایک نہ ایک دن پکڑا جاتا ہے اور اس کی حقیقت لوگوں پر آشکار ہو ہی جاتی ہے، کہیں نہ کہیں اسے سوا بھی سیر مل ہی جاتا ہے جو اسے اس کے برے انجام تک پہنچتا دیتا ہے۔ جیسے چور لٹیرے کسی نہ کسی دن یا تو عوام کے ہاتھوں ذلت کے ساتھ مارے جاتے ہیں یا پولیس کے ہاتھوں۔ بالکل اسی طرح بڑے مجرم، قبضہ مافیا، ڈان اور دہشت گرد بھی اپنے ذلت بھرے منتقی انجام تک پہنچ ہی جاتے ہیں اور زمانے کیلئے عبرت کا نشان ہوجاتے ہیں، مگر بڑے پیمانے پر اس کے اثرات اس لئے مرتب نہیں ہوپاتے کہ اس قسم کے لوگوں نے زندگی کا ایک الگ ہی تصور بنا لیا ہوتا ہے، وہ اپنے جیسے دوسرے مجرموں کے انجام سے سبق سیکھنے کے بجائے حوصلہ پاتے ہیں اور اس پر راضی و مطمئن ہوتے ہیں کہ یہ تو ہونا ہی ہے۔
زندگی کے اتنے ذلت بھرے اور بھیانک اختتام کیلئے جس میں ذلت، رسوائی یا اچانک اذیت ناک موت کا شکار ہو جانا شامل ہے کیلئے وہ پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔
کیونکہ تمام عادی مجرم آج کے پل میں جیتے ہیں، کل کی نہ پرواہ ہوتی ہے نہ تیاری۔ لہذا ان کے اس چلن کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں اور ناآسودگی و بے چینی معاشرے کی عمومی کیفیت بن کر رہ جاتی ہیں۔ اگر معاشرے کو اس تکلیف دہ صورتحال سے نکالنا ہے تو ہر سطح پر انفرادی و اجتماعی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ جرائم مذید جڑیں پکڑیں گے اور ان سے متعلق غلط تصورات کو مز ید تقو یت ملے گی اور جو کچھ آج ہو رہا ہے بہت ممکن ہے ہماری آنے والی نسل شاید اس سے کہیں زیادہ سنگین حالات کا سامنا کرے۔
فیس بک کمینٹ