وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوھدری نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والوں کے خلاف بڑے کریک ڈاؤ ن کا اعلان کردیا… لیکن یہ ضرورت کیوں پیش آئی ؟
آییے ہم آپ کو بتاتے ہیں ………
مادر ملت محترمہ ” فاطمہ جناح ” سے کون واقف نھیں .. کہا جاتا ہے کہ اگر قیام پاکستان کی جدوجہد میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ قائد اعظم کو حاصل نہ ہوتا تو شاید وہ اتنی یکسوئی اور تندہی سے اپنی جدوجہد کو جاری نہ رکھ سکتے لیکن قیام پاکستان کے اور قائداعظم کی رحلت کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کو ” مادر ملت ” بنانے والوں نے جو سلوک کیا وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک کربناک اور تاریک باب ھے اور یہ سلوک آج بھی اسی شرمناک انداز سے مقتدر سیاسی حلقوں میں جاری ھے …..
…….فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بکواسیات کا آغاز ہوا تو ایک لعین شخص نے مادرِ ملت کے انتخابی نشان کو ایک کُتیا کے گلے میں ڈال کر گوجرانوالہ شہر میں تماشہ لگایا یہ واقعہ کسی سانحہ سے کم نہ تھا مگر اتنا کچھ کرنے سے بھی جب وقت کے فرعونوں کا دل نہ بھرا تو غداری جیسا سنگین الزام بھی مادرِ ملت کے پلڑے میں ڈال دیا اور اس طرح بانیِ پاکستان کی ضعیف بہن تذلیل اور غداری و بدنامی کا داغ ساتھ لیے دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں….
……لیکن اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد جب ایوب خان کے زوال کا آغاز ہوا تو سارے ملک میں ایوب کُتا کا نعرہ بلند ہوگیا اس دور کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ ایوب خان کو ملک کے بچے بچے نے کُتا کہا اور اسی ذلت اور رسوائی کے ساتھ ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، اب اسے ہم سیاسی کشمکش کہیں یا کچھ اور مگر درحقیقت یہ مکافاتِ عمل تھا…….
…….پھر بھٹو صاحب کی باری آئی بھٹو اُسی زمانے میں ایوب خان کے دستِ راست ہوا کرتے تھے ۔ بھٹو صاحب ایک بار اخلاق کی حد عبور کرتے ہوئے فاطمہ جناح کے بارے میں یہاں تک کہہ گئے کہ اس بڑھیا نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی . یہ واقعہ بھی بڑا کربناک تھا مگر مقتدر افراد نے ایسا کرنے میں ذرا شرم محسوس نہ کی ……
….. مگر پھر وقت نے کروٹ بدلی اور بھٹو صاحب کے بعد میاں نواز شریف میدان میں آگئے میاں صاحب نے اپنے دورِ عروج میں اپنی سیاسی حریف محترمہ بےنظیر بھٹو کو دنیا زمانے کی گندی گالیوں سے نوازا اور غداری جیسے سنگین الزام بھی لگائے حتی کہ ہیلی کاپٹر سے بےنظیر کی جعلی عریاں تصاویر پھینکنے والا عظیم کارنامہ بھی اپنے اسی دور میں انجام دیا بالآخر بےنظیر بھی اتنا کچھ سہہ کر دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں بےنظیر کے ساتھ جو کچھ ہوا شاید یہ بھٹو صاحب کی مادرِ ملت پر کی ہوئی زبان درازی کا ہی بدلا تھا …..
…….خیر اب باؤجی کے زوال کا آغاز ہوگیا ہے یہ وہی باؤجی ہیں جو عورت کا سیاست میں آنا جائز نہیں سمجھتے تھے مگر وقت کی ستم ظریفی دیکھیے اب وہی شخص جو عورت کی سیاست کو دفن کرنے کے لیے مولویت کا سہارا لیتا تھا اب اپنی بیٹی کو اپنا جاں نشین مقرر چکا ہے مگر اب میاں صاحب کا مکافاتِ عمل قومِ یوتھ کے ہاتھوں انجام تک پہنچ رہا ہے قومِ یوتھ اب باؤجی کی بیٹی کو نہ جانے کیا کچھ کہتی ہے اور فوٹوز ایڈٹ کرکے باؤجی کا ماضی والا کارنامہ دوہراتی ہے مگر اب بےچارے باؤجی مجبور ہیں کیونکہ زوال کی تلوار باؤجی کے سر پر لٹک چکی ہے اب کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر سکتے اور بے شک یہی نظامِ قدرت ہے ……
…..بہرحال ماضی کی اس روداد میں یوتھیوں کے لیے ایک سبق ہے اگر سمجھیں تو
……بذاتِ خود عمران خان نے آج تک کسی جلسے جلوس میں سیاسی مُخالف کی ماں بہن کو گالی نہیں دی اور نہ ہی انکے کردار پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔جبکہ دوسری طرف عمران خان کے بہت سے مخالفین عمران خان اور اسکی فیملی کے بارے میں گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں اور ذاتی حملے کرتے ہیں ۔۔جس کے جواب میں تحریکِ انصاف کے بہت سے ورکرز سوشل میڈیا پر مریم نواز کی تصویریں ایڈٹ کر کے اپنا کینہ نکالتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔ 72 سالہ سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور کارکنان کو اپنا بویا ہوا کاٹنے پہ یقین ہی نہیں . وہ مکافات عمل پر یقین ہی نہیں رکھتے اور شاید ان لوگوں کو یہ بھی پتہ نھیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رھتی ھے
فیس بک کمینٹ