مہمان خاتون کی عصمت کیلئے ایک آئین شکن آمر کے ہاتھوں قربان ہونے والے شہید پر ہر پانچ فروری کو سلام کہا جائے گا۔۔۔!
تم انسان تھے، غلطی پر بھی ہو سکتے تھے ، مگر چونکہ تم کمزور تھے، اور اس کے باوجود ایک مہمان لیڈی ڈاکٹر کی عصمت دری کیخلاف احتجاجاً یوں اٹھ کھڑے ہوئے تھے کہ بالآخر تمہیں پہاڑوں پر پناہ ڈھونڈنی پڑی تھی۔ اس لئے مہمان نواز غیور مگر بے یارومددگار بلوچوں نے تمہارے ساتھ جینے مرنے کا عہد کیا۔
اقتدار کے نشے میں مخمور ایک غدار ڈکٹیٹر نے تمہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمہیں اس طرح ہٹ کیا جائے گا کہ تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ سو اس نے اپنے کئے پر عمل کر ہی دیا۔۔!
تم کمزور تھے، سو شہید کر دئے گئے. عوامی حلقوں میں تمہاری کمزوری ہی تمہاری جیت ٹھہری. سو پہاڑوں کے بیٹے، غیور بلوچوں کے سپوت اس ظلم کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے.
یوں ایک ناہنجار ڈکٹیٹر کے ظلم و شر کیوجہ سے آجتک بلوچستان یورش زدہ ہے. یہاں کی بدامنی بھی کسی کی روزی روٹی بن گئی ہے. سو جب تک ان کا پیٹ ہے، یہاں امن ناپید ہے.
آج تمہارا قاتل، بیشمار معصوم مسلمانوں کا سفاک اجرتی قاتل، ماؤں بہنوں کو ڈالروں کے بدلے امریکہ کو بیچنے والا بردہ فروش جہنم واصل ہو چکا ہے، تو لوگ تم اور جسٹس سیٹھ کو مزاحمت کا استعارہ سمجھ کر خوب تحسین و توصیف اور سلام پیش کر رہے ہیں.
اب تک پانچ فروری کا دن یوم کشمیر کی مناسبت سے منایا جاتا رہا ہے. کشمیر تو آزاد ہوتا دِکھ نہیں رہا، مگر شاید قوم اب سے اس دن کو زمین کے ڈکٹیٹر سے پاک ہونے کی مناسبت سے منائے گی.
سو، بلوچوں کے کلیجے کو اب ٹھنڈ محسوس ہونی چاہئے. اور اب تمام معاملات کو امن سے نبٹانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے، کہ انکا ولن، انسانیت کا قاتل اب نہیں رہا.
قاتل ڈکٹیٹر نہیں رہا، بگٹی شہید غیور پنجابیوں اور بلوچوں کے دلوں میں زندہ رہے گا…!!
فیس بک کمینٹ