رحمان فراز کی نظم : یہی بہت ہے
اس سے بڑھ کر تیرے لیے اب اور فنا کیا ہو سکتی ہے
موت – مسلسل موت ۔۔ جو رفتہ رفتہ روح کو کھا جائے
تو جو اہد کا اک ساگر ہے ، تیرے لیے یہی کافی ہے
موت جو دن کے اجالے ، شب کی تاریکی میں آجائے
یہی بہت ہے تیرے سینے کا دل ایک دھڑکتا سورج
اپنی ایک کرن بس ایک چمک دکھلا کر ہی چھپ جائے
ایک کرن ، بس ایک چمک، جو تیز نکیلا بھالا بن کر
تیرے جیون کو وہ زخم دے جو نہ کبھی اچھا ہو پائے
یہی بہت ہے لاکھ فسانوں کا سیماب ترے ہونٹوں پر
لرزے، پھسلے ، تیری روح کی اک دلدوز پکار بنے
جاگتی آنکھوں کے یہ سپنے، رو پہلے حرفوں کا جادو
یہی بہت ہے تیری انوکھی سوچوں کی تکمیل سے پہلے
( کلیات رحمان فراز ۔۔ صفحہ 69)
فیس بک کمینٹ