تین روز سے اذیت میں ہوں اور یہ تحریر مذمت کے لیے نہیں اپنی اذیت کم کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ مذمت اب بے معنی ہو چکی ہے ۔۔
مجھے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری رونما ہونے والے المناک واقعے کے بعد پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ ہماری اجتماعی بے حسی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اور ہم بلا وجہ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایسے نہیں ہیں۔ ممکن ہے کبھی ایسا ہو مگر اب ایسا نہیں ہے ۔ ہم بحیثیت قوم ایسے ہی ہیں اور اسی لیے اپنے لیڈر بھی اب ایسے ہی چنتے ہیں ۔ ہم تشدد کرنے والوں کو ہمیشہ سے پسند کرتے ہیں ۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال ہماری پنجابی فلمیں ہیں۔
چند ماہ پہلے تک کوئی المیہ رونما ہوتا تھا تو فوری طور پر مقتول یا مظلوم کی تصویر کو بہت سے لوگ ڈی پی بنا لیتے تھے ۔ مذمت کھل کر کی جاتی تھی ۔ دکھاوے کے لیے ہی سہی لیکن کچھ احتجاجی مظاہرے بھی کیے جاتے تھے ۔ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ۔
کسی کے قتل کا جواز پیش کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوتے تھے جتنی بڑی تعداد میں اس مرتبہ دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں ۔ شاید انتہاء پسندوں کو جس بلندی پر پہنچانا مقصود تھا وہ اب اس بلندی پر پہنچ چکے ہیں یعنی قومی دھارے میں شامل ہو گئے ہیں ۔ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ جنہیں ہم مٹھی بھر کہتے تھے اب مٹھی بھر نہیں رہے اب یہ مٹھیاں بھینچ کر ہماری جانب دیکھ رہے اور لپک رہے ہیں۔
مجھے مولانا فضل الرحمان اور مفتی منیب کے بیانات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی اور مجھے ان کے بیانات کی مذمت بھی نہیں کرنا ۔ ان دونوں نے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق بات کی کہ وہ ایسے وحشیوں کو ہمیشہ سے اپنا سمجھتے ہیں ۔ لیکن مجھے افسوس وزیر دفاع پرویز خٹک کے بیان پر ہوا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اس قسم کے واقعات بعض لوگوں کی اصلیت بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے” آج “ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں کو جوش آ ہی جاتا ہے ،بچوں میں ایسا ہوتا ہے ، لڑائیاں بھی ہوتی ہیں ،قتل بھی ہو جاتے ہیں ،ہم جب جوان ہوتے تھے تو پاگل ہوتے تھے ،اس واقعہ کو کسی جماعت سے نہ جوڑا جائے ۔ ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ پرویز خٹک صاحب کا پاگل پن ماشاء اللہ آج بھی سلامت ہے اور اسی لیے انہیں نوجوان سمجھ کر وزارت دفاع بھی سونپ دی گئی ۔
ایک نکتہ جسے زیر بحث نہیں لایا جا رہا وہ تحریک لبیک کا گزشتہ ماہ کا دھرنا ہے ۔ یہ دھرنا کئی روز تک وزیر آباد کے مقام پر جار ی رہا اور سیالکوٹ سمیت ارد گرد کے علاقوں سے تحریک لبیک کے بہت سے کارکن اس دھرنے میں شریک ہوئے ۔ اس واقعے میں جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا ان میں سے کئی اس دھرنے کے موقع پر بھی گرفتار ہوئے تھے ۔
مفتی منیب سمیت اہم مذہبی رہنما جس طرح تحریک لبیک کو بری الذمہ قرار دینے کے جتن کر رہے ہیں یہ بات بھی بہت معنی خیز ہے ۔ جن دوستوں نے ویڈیوز دیکھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان ویڈیوز میں وہی نعرے لگائے جا رہے ہیں جو دھرنے کے دوران مسلسل لگائے گئے تھے ۔
سعد رضوی کو کلین چٹ دینے کی بجائے اس واقعے کا مرکزی ملزم نام زد کرنا تو شائد کسی کے اختیار میں نہ ہو لیکن تحریک لبیک کے رہا ہونے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہار پہنانے والے پی ٹی آئی کے عہدیداروں سے جواب طلبی تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن ہمیں کیا معلوم انہیں ہار پہنانا بھی ان کے فرائض میں شامل اور منصب کا ہی نہیں نئے عالمی بیانیے کا بھی تقاضا ہو ۔
رضی الدین رضی
فیس بک کمینٹ