2 اپریل 2017ء کو میرے ہر دل عزیز دوست سیّد باقر احسن کی بیٹی خدیجہ احسن کے نکاح میں شرکت کی تو اُس موقع پر باقر احسن نے کہا شاکر بھائی آپ نے اپنی بیٹی کی شادی پر جو کارڈ شائع کیا تھا اس کی ایک کاپی درکار ہے۔ مَیں نے کہا باقر بھائی مَیں نے اپنی گڑیا کا ہاتھ چار برس قبل حمزہ حسن کے ہاتھ میں دیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک بے شمار احباب میری بیٹی عنیزہ فاطمہ کے شادی کارڈ کو یاد کرتے ہیں کہ مَیں نے عنیزہ فاطمہ کے شادی کارڈ کا عنوان
ساڈا چڑیاں دا چنبہ۔۔۔
رکھا تھا۔ میرے بچوں میں سب سے بڑی اولاد عنیزہ ہے۔ جبکہ دادا اور نانا کے گھر میں بھی اُس کی حیثیت بڑی پوتی اور بڑی نواسی کی ہے۔ خیر سے ایم۔ایس۔سی کرنے کے بعد جب اس کی شادی کا مرحلہ آیا تو اس نے فرمائش کی کہ پاپا جان میرا کارڈ انگریزی میں ہونا چاہیے۔ مَیں نے اُس سے اختلاف کیا اور کہا بیٹا میری پہچان اُردو میں لکھنے پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ اجازت دو تو مَیں آپ کی شادی کا کارڈ اُردو میں ڈیزائن کروا لوں۔ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ انہی دنوں اُردو کے نامور افسانہ نگار، ناول نگار اور نامور پبلشر مظہرالاسلام ملتان آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے ان سے درخواست کی کہ مَیں نے اپنی بیٹی کا شادی کارڈ اُردو میں تیار کروانا ہے۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے شعبہ آرٹ کے مدارالمہام منصور صاحب سے رابطہ کیا۔ اسے میری بیٹی کی شادی کارڈ کا مرکزی خیال بتایا کہ مشہور زمانہ لوک گیت ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے۔۔۔ کو شادی کارڈ کا عنوان بناؤ۔ چڑیاں اڑتی ہوئی کارڈ کے ٹائٹل پر دکھائی دیں وغیرہ وغیرہ۔
کارڈ تیار ہوا، جب مَیں نے اپنی بیٹی کو دکھایا تو وہ خوشی سے نہال ہو گئی اور کہنے لگی پاپا جان اتنے خوبصورت کارڈ کا تو مَیں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ 7 اپریل 2013ء عنیزہ بیٹی کی رخصتی کا دن تھا۔ میرے مربی و مہربان چوہدری اکرم نے مجھے اپنے گھر کے وسیع و عریض لان میں شادی کرنے کی اجازت دی۔ یوں 7 اپریل 2013 کی شب میری لاڈلی اپنے پیا کے گھر چلی گئی۔ جہاں اس کے لیے دیدہ فرش و راہ کرنے کے لیے بیگم و شبر عباس صدیقی موجود تھے۔ آج جب مَیں یہ سطریں تحریر کر رہا ہوں تو میری لاڈلی کی شادی کو چار برس ہو گئے ہیں اور وہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اپنے شریکِ حیات حمزہ حسن کے ہمراہ جرمنی میں مقیم ہے۔ روزانہ فون پر اس کی آواز سن کر بستر پر جاتا ہوں اور اور ۔۔۔۔۔۔
اکثر اپنے گھر میں اس کے خالی کمرے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو بیٹی کو نہ پا کر اُداس ہو جاتا ہوں۔ عنیزہ نے اپنے کمرے کی کلر سکیم پنک رکھی ہے۔ گزشتہ ماہ جب گھر میں پینٹ کرایا تو مَیں نے اس کے کمرے کی کلر سکیم تو وہی رکھی البتہ میری اہلیہ نے بیٹی کے کمرے میں بلائنڈز کا رنگ تبدیل کر دیا ہے۔ عنیزہ کا کمرہ اس کی بچپن سے لے کر شادی کی تصاویر سے سجا ہوا ہے۔ ڈریسنگ میز کا شیشہ بھی اُداس ہے کہ اس کے کمرے کی مکین کئی ماہ سے غیر حاضر ہے۔ اپریل کے آتے ہی حمزہ اور عنیزہ کی شادی کی سالگرہ اہتمام سے مناتے ہیں۔ دوسری جانب مَیں اور اہلیہ 7 اپریل کو دونوں کو بے شمار دُعائیں دے کر دن کا آغاز کرتے ہیں اور پھر ہم عنیزہ کی شرارتیں اور باتیں یاد کرتے ہیں۔ اس کو میرے گھر سے رخصت ہوئے 1460 دن ہو گئے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس دن ہم نے اس کا ذکر نہ کیا ہو، اسے یاد نہ کیا ہو۔ وہ میرے گھر کی رونق ہے۔ اس کی ماں گھر کا کوئی کام اس کے مشورے کے بغیر نہیں کرتی۔ جبکہ مَیں اپنے گھر کی دیواروں پر لگی ہوئی اس کی تصاویر کو چشمِ تصور میں بولتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ یہ بیٹیاں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں۔ وہ رات کو سوتے میں جاگتی ہیں جب تمام گھر والے اُٹھ جاتے ہیں تو یہ سوتی رہتی ہیں۔ دیر سے اُٹھنے پر اگرچہ ہر کوئی صلواتیں سنتا ہے لیکن کسی کو کیا معلوم کہ وہ شب بیداری کے ذریعے والدین اور بھائیوں کی زندگی کے لیے دُعائیں کرتی ہے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ جب کبھی گھر میں کسی کی میڈیکل رپورٹ ٹھیک نہ آئے وہ ڈاکٹر بن کر انٹرنیٹ کے ذریعے بیماری کا علاج معلوم کرتی ہے۔ اگر بیماری خطرناک ہو تو گھر میں ’’ایمرجنسی‘‘ نافذ کر دیتی ہے۔
ایک دن مَیں نے اس کے کمرے کی الماری میں عنیزہ کی کتابوں کو دیکھا تو اس میں نظموں کی کتاب جھولنے اور ٹوٹ بٹوٹ پڑی تھیں۔ بچوں کے رسائل میں کہانیاں سانس لے رہی تھیں۔ کوکنگ کے میگزین میں اس کے ہاتھ کے تیار کیے ہوئے کھانوں کی خوشبو مہک رہی تھی۔ ماہنامہ شی میگزین کے فیچرز بھی اس کی آنکھوں کے منتظر تھے۔ میرے گھر کے لان میں مارچ کے آخری ہفتے سے لے کر اپریل کے اختتام تک بے شمار پھول کھِلتے ہیں۔ ان پھولوں کے رنگوں میں مجھے عنیزہ دکھائی دیتی ہے۔ کبھی جب صبح سویرے آنکھ کھل جائے تو سکول جاتے ہوئے بچوں کی شکلوں میں عنیزہ کا بچپن میرے کمرے میں اتر آتا ہے۔ جہاں پر مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ اس کی ماں یونیفارم پریس کر کے سفید جوتوں کو صاف کر کے اور ٹفن میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ روزانہ دُعائیں بھی پیک کر کے سکول روانہ کرتی تھی۔ گلے میں کتابوں کا بھاری بھرکم بستہ لٹکائے جب وہ سکول جاتی تو ہم گیٹ تک اس کے تایا ابو مظاہر کی گاڑی تک چھوڑنے جاتے کہ ہمیں معلوم تھا کہ گھر سے سکول تک کا مرحلہ ہی تو جدائی کا مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ مرحلہ سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عنیزہ نے شادی کے بعد ہمارے گھر میں اپنے پرانے کھلونے، کتابیں، پین، کاپیاں، جوتے، کپڑے سب کچھ چھوڑ کر اگلے گھر گئی تو یادوں کی پوری کہانیاں تو ہمارے گھر میں چھوڑ گئی۔ ان یادوں میں ہمارا پیار، ہماری ڈانٹ، اپنی گڑیاں، چپس، چکن کے سالن اور رنگ برنگے کپڑوں کے علاوہ کچھ آنسو جو اس نے ہمارے گھر میں بہائے، کچھ قہقہے جو اس نے ہمارے ساتھ لگائے۔ بہت سی لڑائیاں جو اس نے اپنے دونوں بھائیوں جاذب اور ثقلین رضا سے لڑیں۔ بہت سے رَت جگے اور خواب سب کچھ ہمارے پاس چھوڑ گئی۔ مَیں، شائستہ اور بچے روزانہ اس کی آواز کے متلاشی ہوتے ہیں۔ رات گئے جب ہم پورا دن گزار کے اس سے رابطہ کرتے ہیں، ہیلو کے بعد خیریت دریافت کرتے ہی کبھی کبھار یہ بھی سننا پڑتا ہے پاپا جان فون بند کریں اس وقت حمزہ کے لیے کھانا بنا رہی ہوں۔ تو ہم پھر وہی گیت یاد کرتے ہیں جو اس کے شادی کارڈ کا عنوان بنایا تھا:
ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے
بابل اساں اُڈ جاناں
ساڈی لمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ ہمارے گھر کی چڑیا اڑ کر جرمنی کی ہواؤں میں چہک رہی ہے اور ہم ملتان میں بیٹھے اپنے صحن میں آنے والی ہر چڑیا کے لیے روزانہ دانہ اور پانی تبدیل کرتے ہیں کہ یہ چڑیا آنگنوں میں چہکتی ہی اچھی لگتی ہیں چاہے وہ آنگن ملتان میں ہو یا جرمنی میں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)