پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے ہر سطح پر پرتشدد رجحانات پر مبنی طرز عمل کے خلاف ایک مشترکہ بیانیہ اور حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ جو بھی فریق چاہے وہ کتنا بھی بااثر یا طاقت ور کیوں نہ ہو جو طاقت، دھونس، تشدد اور اسلحہ یا ڈر اور خوف کی بنیاد پر کوئی بھی طرز عمل یا عملی قدم اٹھائے اس کے خلاف ریاستی وحکومتی رٹ ہر سطح پر نہ صرف مضبوط ہونی چاہیے بلکہ یہ پالیسی واضح اور شفاف بھی نظر آنی چاہیے۔ ریاستی و حکومتی پالیسی میں زیرو برداشت پر مبنی پالیسی ہی ہمیں پر تشدد سیاسی ، سماجی ، قانونی او رمذہبی رجحانات اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر سے پاک کرسکے گی ۔کیونکہ پرتشدد رجحانات پر مبنی معاشرہ کسی بھی سطح پر اپنی ساکھ قائم نہیں رکھ سکتا اور داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر اسے سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
پاکستان میں بہت سے فریقوں نے پرتشدد سیاست او رطرز عمل کو اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے ۔ بدقسمتی سے ایسے افراد یا عناصر کو کسی نہ کسی شکل میں ریاستی وحکومتی سمیت طاقت ور طبقات یا ادارہ جاتی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں پرتشدد رجحانات پر مبنی سیاست کا مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں بدستور موجود ہے ۔ہمارے عدالتی نظام اور اس سے جڑے افراد جن میں وکلا اور ججز شامل ہیں پر انصاف کی آزادی پر یا عدلیہ کی شفافیت یا خود مختاری پر سوال اٹھتے رہے ہیں ۔لیکن پچھلے چند برسوں میں ہم نے بدقسمتی سے وکلا برادری میں پرتشدد رجحانات میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا ہے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر قیادت وکلا تحریک کے بعد ہم نے وکلا پر تشدد کی پالیسی کو اختیار کرتے دیکھا ہے ۔
روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں ، ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں وکلا کے مختلف گروہ یا تو آپس میں الجھ کر تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اپنے مخالف سائل یا ججز یا پولیس کے خلاف بھی تشدد کے معاملات کو دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ کوئی ایک یا دو واقعات نہیں بلکہ اب ان واقعات میں ہمیں مسلسل ایک تسلسل نظر آرہا ہے ۔اسی طرح بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کے موقع پر اسلحہ کی سرعام نمائش او راستعمال بھی ایک تکلیف دہ پہلو ہے ۔یہ کونسا طرز عمل ہے کہ ہم محض اپنی مرضی کے فیصلے سننا چاہتے ہیں اور مخالف آواز کو طاقت کے زور پر دبانا چاہتے ہیں اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسے اپنی بڑی کامیابی یا طاقت سمجھتے ہیں ۔
پاکستان کی عدلیہ ، وکلا برادری میں بڑے بڑے سیاسی اور قانونی معتبر نام ہیں ۔ مختلف سیاسی تحریکوں میں ان کا اہم کردار بھی رہا ہے او ربہت سے ایسے وکلا اور ججز بھی ہیں جو انسانی حقوق، رواداری ، جمہوریت کی حمایت جبکہ آمریت، تشدد اور طاقت کے استعمال کی ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں ۔اس لیے یہ کہنا کہ پرتشدد رجحانات میں پوری وکلا برداری ملوث ہے یہ بھی درست تجزیہ نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے وہ کون لوگ ہیں جو وکلا برادری میں کالے کوٹ پہن کر وکلا فاشزم کا مظاہرہ کررہے ہیں او رکیوں ان وکلا کے خلاف وکلا برادری کی جانب سے ہی داخلی احتسابی نظام کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ وکلا برادری میں ایسے افراد جو طاقت کے استعمال یا تشدد کی حمات کرتے ہیں وہ کون ہیں او رکیوں وہ پوری وکلا برداری کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔
وکلا برادری کے ماتھے کا جھومر اس کی ایسوسی ایشن ہوتی ہیں جو سالانہ بنیاد پر جمہوری طریقہ اختیار کرکے منتخب ہوتی ہیں ۔وکلا برادری ایسے ہی لوگوں کو منتخب کرنے کا حق رکھتی ہے جو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنا موثر کردار ادا کریں ۔ لیکن اب اس مسئلہ کو سمجھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ وکلا کی ایسوسی ایشن چاہے وہ سپریم کورٹ بار ہو، یا ہائی کورٹ بار یا صوبائی بارکونسل یا ضلعی یا تحصیل بار کونسل وہ وکلا برادری میں پرتشدد رجحانات کی سرکوبی کرنے او راسے روکنے میں ناکام ہورہی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو کچھ وکلا برادری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کے ساتھ کیا اس کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی او رایسے افراد کو ہر سطح جوابدہ بنانا ہوگا ۔یہ بار ایسوسی ایشن او ران کی قیادت کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے داخلی معاملات میں شفافیت سمیت غلط افراد کے خلاف جوابدہی کا بیانیہ مضبوط کریں ۔یہ دلیل کے وکلا کی قیادت اپنے ووٹ کی خاطر ایسے وکلا کے ہاتھوں نے بس نظر آتی ہیں اس کو ختم کرنا ہوگا ۔شفافیت او رجوابدہی کا نظام بے لاگ ہو او رجو بھی وکیل جس بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو او رکتنا بھی بڑا نام یا مضبوط ہو اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔
بنیادی طور پر مسئلہ بار ا و ربنچ کا تعلق ہے۔ یہ تعلق مضبوط ہونے کی بجائے کمزور اور بداعتمادی کا شکار ہے ۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ۔اس لیے اصولی طو ر پر تو معاملات کی درستگی کے لیے بار او ربنچ کو مل کر کام کرنا چاہیے اور جو بھی مسائل ہیں ان کو مل جل کر ہی حل کرنا چاہیے ۔ وکلا برادری کی بڑی پہچان ان کی جمہوری روایات ہیں ان کو کسی بھی سطح پر مسخ نہیں ہونا چاہیے ۔ خاص طور پر اب تو ہم کو وکلا کی ایسوسی ایشن کے انتخابات میں دولت کا کھےل اور ووٹو ں کی خرید وفروخت کے معاملات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو واقعی وکلا کمیونٹی کے لیے توجہ طلب پہلو ہے ۔یہ بات ٹھیک ہے کہ مسئلہ محض وکلا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ہرطبقہ میں غصہ ، بدلہ او رانتہا پسند سمیت تشدد کے رجحانات بڑھ رہے ہیں ۔لیکن وکلا برادری کو اس عمل میں خود کو دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ بہتر طو رپر پیش کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کا قانون کی حکمرانی پر اعتماد قائم بھی ہو اور یہ عمل ہر صورت میں بحال بھی ہونا چاہیے ۔
معاشرے کے ذمہ دار طبقات کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ وکلا برادری میں پر تشدد رجحانات کیونکر پیدا ہوئے ہیں ۔کیونکہ جو مسائل کی شدت ہے اسے بھی کسی سطح پر بحث کا موضوع بنانا ہوگا ۔کیا مسئلہ ایسوسی ایشن کی سطح کا ہے یا کچھ لوگوں کے یہ انفرادی مسائل ہیں او رپھر اگر یہ مسئلہ انفرادی سطح کا ہے تو تشدد کرنے والے عناصر کی کون سرپرستی کرتا ہے ۔اگرچہ یقینی طور پر وکلا برادری کی سطح پر ان ضابطے ہونگے لیکن مسئلہ یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کیونکہ مختلف واقعات پر کمیٹیاں انکوئری کی سطح پر قائم تو ہوتی ہیں لیکن سیاسی مصلحتوں کو بنیاد بنا کر ان انکوائری کمیٹیوں کے بڑے نتائج یا ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کا نظام کمزور ہوتا ہے ۔اسی طرح یہ سوچ اور فکر بھی خطرناک ہے کہ کوئی بھی طبقہ اس زعم میں مبتلا ہوجائے کہ وہ کسی بھی سطح جوابدہ نہیں خود تشدد کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔
حکومتی و ریاستی سطح پربھی قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر وکلا خود سے قانون کی حکمرانی کی پابندی نہیں کرنا چاہتے اورتشدد کی پالیسی کو اپنا ہتھیار بنا کر ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ریاست و حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی ۔ کیونکہ ایک طرف وکلا برادری کی مکمل خاموشی او راس پر حکومتی ناکامی یا سمجھوتوں یا مصلحتوں کی سیاست کو اختیار کرکے خاوش رہنے کی پالیسی بھی تشدد کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو بھی غور کرنا ہوگا کہ ان کی کمزوری کا فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو تشدد کی پالیسی کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ