پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل نے باقاعدہ پارٹی کا صدر منتخب کرلیا ہے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ نواز شریف کی جگہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ کل بھی ہمارے لیڈر تھے، آج بھی رہنما ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پارٹی صدارت سے نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد پارٹی کی مجلس عاملہ نےشہباز شریف کو صدر اور نواز شریف کو تاحیات قائد منتخب کرلیا تھا۔ شہباز شریف نے آج تقریر کرتے ہوئے نواز شریف کے خلاف فیصلوں کو ناانصافی کہتے ہوئے انہیں قائد اعظم ثانی قرار دیا اور کہا کہ قائداعظم کے بعد ملک میں اگر کوئی رہنما پیدا ہؤا ہے تو وہ نواز شریف ہیں جنہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا ، دہشت گردی کا خاتمہ کیا اور اب ملک سے لوڈ شیڈنگ کو خیر اباد کہا جا چکا ہے۔ وہی پاکستان کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہباز شریف جوش خطابت میں تعریف کرتے ہوئے غلو اور مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم اس وقت ملک کو سنگین معاشی مسائل اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ داخلی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ سیاسی ماحول اس قدر کشیدہ ہو چکا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران سیاسی لیڈروں پر جوتے پھینکنے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ میں نواز شریف پر جوتے سے حملہ کے بعد آج گجرات میں عمران خان پر جوتا پھینکا گیا۔ ان حالات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے صدر کے طور پر ان سے متوازن اور حقیقت پسندانہ کردار کی توقع کی جاتی ہے۔
ایک بڑی پارٹی کے رہنما کے طور پر شہباز شریف پر بھائی کی خدمات کے اعتراف سے زیادہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے سیاسی ماحول میں تصادم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے طرز عمل کو تبدیل کرنے کے لئے کام کریں۔ انہوں نے جوش خطابت میں آج نواز شریف کی خدمات اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ’قائد اعظم ثانی‘ قرار دیا لیکن خطابات بانٹنے خود کو حب الوطنی کے منصب پر فائز کرتے ہوئے دوسرے سیاسی لیڈروں کی ملک سے دوستی کے بارے میں شبہات پیدا کرنے سے اس ملک کے معاملات درست ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو گزشتہ تیس پینتیس برس کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف بھی اس کھیل کا حصہ رہ چکے ہیں۔ نوّے کی دہائی میں جو روایت شروع کی گئی تھی، اسے میثاق جمہوریت کے باوجود ختم نہیں کیا جاسکا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حقیقی معنوں میں اس معاہدہ میں طے پانے والے اصولوں پر عمل کرتے اور سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے تعاون اور مل جل کر کام کرنے کی روایت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے تو کل سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی بد مزگی سے بچا جا سکتا ہے۔
جمہوریت میں صرف اپنے حق حکومت پر اصرار کرنے اور کروڑوں ووٹ لینے کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسروں کی سیاسی حمایت اور اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی رہنما کو ووٹ لینے کا زعم ہے تو اسے اس ذمہ داری کا احساس بھی ہو نا چاہئے جو عوام کی نمائیندگی کا حق ملنے کی صورت میں کسی پارٹی یا اس کے لیڈر پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں مروّج پارلیمانی جمہوریت میں ووٹ کو امانت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے خود کو ملنے والے ووٹوں کے ساتھ ہی ان لوگوں اور پارٹیوں کے حق نمائیندگی کا بھی احترام کیا جاتا ہے جو اپنے طور پر کثیر تعداد میں ووٹ حاصل کرتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتے۔ حکومت بنانے والی پارٹی کو اگر نظام حکومت چلانے کی ذمہ داری حاصل کرتی ہے تو اپوزیشن میں بیٹھنے والی پارٹیوں پر بھی پارلیمانی نظام میں حکمران جماعت پر نظر رکھنے اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ جمہوری نظام کے تسلسل اور پائیدای کے لئے یہ دونوں کردار اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں حکمران جماعتیں کبھی اپوزیشن کی اہمیت کو اور اپوزیشن میں موجود جماعتیں اکثریت کے حق حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتیں۔
اسی لئے ملک میں پرویز مشرف کی آمریت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور میں ہی 2008 کے بعد سے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو مطعون کرتی رہی اور اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے جبکہ 2013 میں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پیپلز پارٹی نے یہی کردار پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ادا کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ مرکز میں حکومت میں نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل حکومت میں رہی ہیں ۔ لیکن یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ذریعے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش تو کرتی ہیں لیکن ایسا سیاسی ماحول بنانے کے لئے تیار نہیں ہیں جس میں عوام کے سب نمائیندے ملک کے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں اور اس خوف سے نجات حاصل کرنے کے لئے کام کریں کہ فوج کسی بھی لمحے اقتدار پر قبضہ کرلے گی۔ یا سیاسی معاملات میں مداخلت کے ذریعے عوامی نمائیندوں کے حق فیصلہ کو محدود یا مسدود کرے گی۔ اس کا مظاہرہ سینیٹ کے انتخابات اور کل اس کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر دیکھنے میں بھی آیا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت اب ’خفیہ ہاتھوں‘ پر الزام عائد کرکے اپنے ہی سیاسی بھائی بندوں کو بے وقعت قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن کیا نواز شریف اور شہباز شریف اور مسلم لیگ کے سب قائدین سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ وقت آنے پر وہ خود ان خفیہ ہاتھوں کا آلہ کار نہیں بنے۔ یا اب بھی جب کہ مرکز اور سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، اس کے لیڈر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور نواز شریف خود کو نظام کا ’باغی‘ قرار دینے کے باوجود، درپردہ انہیں طاقتور حلقوں سے رابطہ رکھنے اور ’مصالحت‘ کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں مصروف نہیں رہتے۔ شہباز شریف خود ایسی کوششوں کا حصہ رہے ہیں۔ مشاہد حسین کو سینیٹر بنوا کر اور راجہ ظفر الحق کو سینیٹ کے چیئرمین شپ کا امید وار بنا کر آخر کس کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
نواز شریف کو قائد اعظم ثانی بنانے سے پہلے یہ غور کرلیا جائے کہ جمہوریت اور سیکولر ریاست کے بارے میں محمد علی جناح جن اصولوں پر یقین رکھتے تھے اور جن پر انہوں نے کبھی سودے بازی کرنا پسند نہیں کیا، نواز شریف بھی کیا ان اصولوں پر ویسے ہی عمل کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کو فراموش بھی کردیا جائے، اب بھی نواز شریف کی لڑائی اگر خود اپنے اقتدار، اور خاندان کی سیاسی میراث کے تحفظ کے لئے نہ ہوتی تو وہ پارٹی کو خاندان کی جاگیر بنانے کی بجائے اسے عوام کی ملکیت میں دینے کے اقدام کرتے۔ وہ یہ روایت قائم کرنے کی کوشش کرتے کہ پارٹی کا عام کارکن میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے شریف خاندان کا سپوت یا سپوتری ہونا ضروری نہیں ہے۔ نواز شریف نے آج جنرل کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کیا ہے اور اسے 2018 کے انتخابات میں منشور بنانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اداروں سے ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انہیں خود یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ووٹ کا احترام کرتے ہیں۔ وہ ان سیاسی کارکنوں کی عزت کرتے ہیں جو پارٹی کو کامیابی دلانے اور سیاسی عمل کو جاری رکھنے میں دن رات محنت کرتے ہیں۔ اگر نواز شریف اپنی پارٹی میں جمہوریت اور میرٹ نافذ کرنے کے لئے اقدامات کر سکیں تو انہیں قائد اعظم ثانی بننے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ وہ اپنے بھائی کے منہ سے یہ خطاب وصول کرکے خوش ہوں گے۔ اس صورت میں خود وہ اپنے کردار اور اصولوں کی بنیاد پر ایسے جمہوری لیڈر کی حیثیت اختیار کرسکیں گے جو اپنے میرٹ پر عزت اور احترام کا مستحق ہوگا۔
ملک میں ووٹ کا احترام عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فوجی ادارے ملک کے جمہوری فیصلوں میں مدخلت کریں اور مرضی کے کرداروں کو سامنے لانے کے لئے متحرک ہوں تاکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل کرواتے رہیں جسے بدقسمتی سے قومی مفاد اور سالمیت یا نظریہ پاکستان کے سہانے مگر گمراہ کن نام دے دیئے گئے ہیں۔ لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سیاست دان اصولوں کی بنیاد پر عوام کی بہبود اور پاکستان کی ترقی کے لئے کام کریں۔ سیاست کا نام اقتدار حاصل کرنا اور اس مقصد کے لئے مدمقابل کو ملک دشمن قرار دینا نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک یہ روایت ختم نہیں ہوتی ، جب تک سیاست دان یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ اقتدار کے لئے ہر ہتھکنڈا درست رویہ نہیں ہے اور غیر جمہوری قوتوں سے ساز باز ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کا سبب نہیں بن سکتی، اس وقت تک میمو گیٹ، ڈان لیکس یا بلوچستان میں اکثریتی حکومت کے خلاف بغاوت جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ جب تک سیاست دان قومی اسمبلیوں کو عزت دے کر اداروں کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عوام کے سامنے لانے کا حوصلہ نہیں کریں گے ملک میں جمہوریت ان عناصر کی اسیر رہے گی۔
نواز شریف اعلان کرتے ہیں کہ ملک میں ستر برس سے وزرائے اعظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا اور اب وہ اس روایت کو تبدیل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کا آغاز وہ میمو گیٹ کی اصلیت اور ڈان لیکس کی حقیقت سامنے لاکر کر سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ حوصلہ نہیں کرتے اور بدستور دو کشتیوں کے سوار رہنا چاہتے ہیں تو جمہوریت تو رہے گی ، اس میں روح نہیں ہوگی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )