گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ملک کی سیاسی صورتحال عجیب کشمکش کا شکار ہے پاکستان میں موجود تمام ادارے اپنی اجارہ داری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں پاکستان کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔۔ عدالتیں آئین کی شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے پہ لگی ہوئی ہیں اور آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کرتی ہیں جس سے آئین کی اساس کو بہت سے خطرات لاحق ہیں یہ کیسا انصاف کا نظام ہے کہ عام آدمی کی کیلئے انصاف کے تقاضے کچھ اور ہیں امیر کیلئے کچھ اور ہی پاکستان کا عدالتی نظام جس قدر گراوٹ کا شکار ہے لگتا ہے آنے والے کچھ برسوں میں ہر کسی کی اپنی عدالت اپنا قانون ہو گا ۔
سیاستدان جب چاہیں ملک میں افراتفری پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ غلام ذہن کے لوگ ان کے سپورٹر ہیں جو ان کے غلط کاموں کو بھی اچھا بنا کر پیش کرتے ہیں یہی سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں ملک کے نظام میں ہزاروں کیڑے نظر آتے ہیں اور جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو پہلے والوں سے بڑھ کر کرپشن کو فروغ دیتے ہیں لاقانونیت کی مثالوں سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے جب ایک وزیراعظم کو ایک الزام پہ پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے سیاستدان اسے عدالتی قتل قرار دیتے ہیں اور یہی عدالتیں مان بھی لیتی ہیں کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ غلط تھا اس طرح ایک آمر کو اقتدار میں لانے کیلئے محفوظ راستہ بنایا جاتا ہے پاکستان کی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم کو باعزت بری کر کے دوسرے ملک بھیج دیا جاتا ہے جو کہ عدالتی نظام پہ سوالیہ نشان ہے۔۔ گزشتہ کچھ روز سے عدالتوں کی کاروائیاں دیکھ کر لگتا ہے جیسے پاکستان کی عدالتوں سے تمام کیس ختم ہو چکے ہیں جو معزز عدالتیں چھٹی کے دن بھی کاروائی کیلئے کھول دی جاتی ہیں بلکہ رات کے بارہ بجے بھی عدالتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں آخر وہ کونسی طاقتیں ہیں جو قانون کو پاؤں تلے روند رہے ہیں یہ تمام اقدامات پاکستان کے مستقبل کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے اگر ایسے ہی فیصلے ہوتے رہے تو آنے والے کچھ برسوں میں عدالتیں اور دیگر ادارے اپنا وقار کھو بیٹھیں گے اور ان کے پاس بحالی کا کوئی راستہ بھی نہی ہو گا۔۔
اگر اداروں نے اس طرح کام کرنا ہے تو پاکستان کا مستقبل خطرے سے خالی نہیں ابھی بھی وقت ہے تمام ادارے اپنے لئے نہی پاکستان کیلئے سوچیں آنے والی نسلوں کا سوچیں کہ ہم انہیں کونسا پاکستان دے کر جانا چاہتے ہیں ہم کب پاکستانی بن کر یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔
فیس بک کمینٹ