ہماری ملکی سیاست ساس بہو کا جھگڑا بن کر رہ گئی ہے جس کے باعث پوری قوم ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ساس بہو کاجھگڑا بھی اتنا گڈ مڈ ہو گیا ہے کہ قوم یہ فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہےکہ ” کپتی” ساس ہےیا بہو اور پھر پنچایتی فیصلے کی مانند اپوزیشن ساس کو اور حکومت بہو کو قصور وار قرار دیتی ہے قصور وار کوئی بھی ہو عام آدمی اذیت کا شکار ہے جبکہ پڑھا لکھا طبقہ جمہوریت کی بساط لپٹتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔جھگڑے کی ابتدا قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے ہی شروع ہو گئی جب وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن نے شور شرابہ کر کے تقریر نہ کرنے دی اور وزیر اعظم نے ن لیگ کو چور قرار دے دیا۔اس وقت تک پی پی پی وزیر اعظم کے حق میں بیان دے رہی تھی بلکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے تو عمران خان کے حق میں بہت واضح بیان دیا ۔ جب نیب نے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کی کارروائی شروع کی تو حالات نے پلٹا کھایا۔
جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں تنہا پرواز کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دے کر اپنا پاور شو کر چکی تھی لیکن اس موقع پر نہ جانے کس مصلحت کے تحت پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے اپنی راہیں الگ کئے رکھیں ۔شاید اس وقت تک دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو کچھ ریلیف ملنے کی توقع تھی لیکن پھر نا امیدی نے سب بندھن توڑ دیئے۔تمام اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے نام پر متحد ہوگئیں اور جلسوں، ریلیوں اور احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔اس دوران حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی دی گئی لیکن اپوزیشن نےو قت گزر گیا کہہ کر رد کر دی۔پی ڈی ایم کے گزشتہ اجلاس میں 26 مارچ 2021 کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا اور حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخی بھی مزید بڑھ گئی جس کا اظہار قومی اسمبلی میں پوری قوم نے دیکھا۔قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں اپوزیشن نے ہلڑ بازی کی انتہا کر دی اور حالات ہاتھاپائی تک پہنچ گئے۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس واقعہ کے خلاف تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دی جس کی رپورٹ کے بعد اب تین ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف سینیٹ الیکشن کے طریق کار کے متعلق اختلافات کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس جاری کر دیا جو اب سب سے بڑے تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔اس آرڈیننس میں حکومت شو آف ہینڈ سے ایک قدم پیچھے ہٹی اور اب شو آف ہینڈ کی بجائے کسی بھی رکن اسمبلی کا ووٹ درخواست دے کر دیکھا جاسکتاہے۔اپوزیشن اور خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری نے اس آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے قبل اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں چارٹر آف ڈیموکریسی میں سینیٹ کے الیکشن کو شفاف بنانے کا عندیہ دے چکی تھیں لیکن اب ساس نے کہا تو بہو کیسے مانے کے مترادف اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
اب تک 1973 کا آئین لاگو ہونے کے بعد 2000 سے زائد آرڈیننس کا اجرا
ہوا موجودہ حکومت نے بھی اب تک 47 آرڈیننس جاری کئے لیکن موجودہ آرڈیننس متنازعہ بن گیا اور اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ اپوزیشن نے کیا ہے۔آئین کے تحت آرڈیننس کو صرف اس صورت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ جب آرڈیننس فوری ضرورت کے تحت جاری نہ کیا گیا ہو۔اب حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخی اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو چور قرار دے کر کہتی ہے کہ این آر او مانگتے ہیں جو نہیں ملے گا جبکہ اپوزیشن منتخب وزیر اعظم کو نا اہل نالائق اور سلیکٹڈ کہے بغیر مخاطب ہی نہیں کرتے جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ نے تو انتہا ہی کردی۔ مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم کو ’’ناجائز‘‘ قرار دے دیا ہے۔ ایسی ہی لڑائی پہلے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے مابین کئی سال تک عوام دیکھتی رہی اور آخر کار جنرل مشرف کی آمریت نے دونوں کو چارٹر آف ڈیمانڈ پر متفق کیا جس کی دونوں نے دھجیاں اڑائیں۔ بینظیر بھٹو شہید نے جنرل مشرف سے مذاکرات کر کے این آر او لیا جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے پی پی پی کی حکومت کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا حتیٰ کہ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر پی پی پی حکومت کے خلاف مقدمہ میں سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میثاق جمہوریت کے باوجود الزام تراشی اورا یک دوسرے کی حکومت کو کمزور کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
عوام یہ سوچنے پر حق بجانب ہے کہ کیا کمزور معیشت والے ممالک جمہوریت کے ثمر سے بھی فیض یاب نہیں ہو سکتے۔کیا جمہوری منتخب حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی حکومت کی مدت پوری ہونے پر اس کی کارکردگی کی بنا پر ووٹ کا فیصلہ کریں شاید کمزور معیشت والے ممالک میں جمہوریت بھی کمزور رہتی ہے لیکن پھر ہمسایہ ملک بھارت میں جمہوریت مضبوط کیوں ہے۔ وہاں تو "طوطے ” فال نہیں نکالتے کہ اس بار کس کی حکومت ہو گی۔گویا اقتدار کی چمک دولت کی ریل پیل اور سکیورٹی کے نام پر پروٹوکول اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ منتخب حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے اور اپوزیشن اس چمک دمک اور دولت کی ریل پیل سے اتنی لمبی مدت باہر رہےوجوہات جو بھی ہوں عوام اس ساس بہو کے جھگڑے سے تنگ آ چکے ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک ایک ہی طرح کے الزامات اور عوام مو درپیش مسائل کے نام پر وسائل پر قبضے کی تاریخ پڑھ پڑھ کر اکتا گئے ہیں۔عام آدمی کی حالت جوں کی توں ہے لیکن ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لکھ پتی اب ارب پتی بن گئے ہیں۔عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہنے اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والوں نے عوام کو بنیادی سہولیات دیں اور نہ ہی ووٹر کو عزت دی۔ رہا ساس بہو کاجھگڑا تو اب عوام اتنی تنگ آ چکی ہے کہ اب وہ’’پنچایت‘‘ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ بدلتا زمانہ )
فیس بک کمینٹ