( گزشتہ سے پیوستہ )
کامریڈ محمد علی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ ’مُجھے گورے کو ہندوستان سے نکالنے کی بات اچھی لگی تھی۔ مگر مُجھے یہ انداز ہ نہیں تھا کہ اس وقت کی کیمونسٹ پارٹی نے خود مزدوروں کی یکجہتی کی بات کرنا چھوڑ دی تھی، ’قومی سوال‘ کے نام پر کیمونسٹ پارٹی نے کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست میں حِصہ لینا شروع کر دیا تھا اور اِس طرح مزدوروں کے اندر ہی ہندو مسلمان کا سوال کھڑا کر دیا گیا تھا۔ یہ باتیں مجھے کِسی دوسرے برِاعظم سے آئی ہوئی لگتی تھیں اور میں نے اپنے آپ کو یونین کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اور یونین مجھے سیاست نہیں سِکھاتی تھی۔ بس تنظیم کے اصول بتائے جاتے تھے، مزدوروں کو یکجا کرنے کے گُر سِکھائے جاتے تھے مگر اِس یکجہتی کا جو مقصد ہونا چاہیئے تھا یعنی طبقاتی جنگ ۔۔۔ وہ نہیں بتایا جاتا تھا۔
ٹریڈ یونین اپنی منزل آپ تھی۔ (یہاں کامریڈ محمد علی اُسی نوعیّت کی ٹریڈ یونین کی بات کر رہے ہیں جِس کا تذکرہ ہم پہلے ’دفاعی نوعیّت کے ٹریڈ یونین ازم‘ کے ضمن کر چکے ہیں) اور ہم نِظام (سرمایہ دارانہ نظام) کے اندر رہ کر چھوٹی چھوٹی قانونی لڑائیاں لڑنا سیکھ رہے تھے اور طبقاتی اقتدار کا خیال ہمارے وہم و گمان تک میں نہیں تھا۔ اسی لیئے ہم ملکی اور عالمی سیاست کو سمجھنا غیر ضروری سمجھتے تھے کیونکہ یونین نے ان مسائل پر تعلیم کا کوئی بندوبست ہمارے لیئے نہیں کیا تھا۔ چنانچہ ٹریڈ یونین کے علاوہ دنیا کے ہر معاملے پر ہمارے خیالات وہی تھے جو سرمایہ دار طبقے ہمیں سِکھاتے تھے‘۔ تو دوستو، یہ ہیں آذاد خیالی کے نتائج، جہاں ایک کیمونسٹ پارٹی اگر آز اد خیالی کی لپیٹ میں آ گئی ہو تو ایک وفادار مزدور کیمونسٹ کو یہ بھی نہیں بتا پاتی کہ اُس کی جدوجہد کا اصل مقصد عوامی جمہوری انقلاب ہے۔
ساتھیو، ترمیم پسندی کےحوالے سے بھی کامریڈ محمد علی کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ لِکھتے ہیں ۔۔۔ ’حسن ناصِر مرحوم بھی اِسی پارٹی کے رکن تھے جو کِسی قِسم کی پارٹی تھی ہی نہیں۔ ہمیں مارکسی نظریہ تو اپنے لیڈروں سے مِلنا تھا اورانقلابی سوچ اُن کے پاس ہی نہیں تھی تو ہمارے پاس کہاں سے ہوتی؟ مگر اچھے اچھے کارکن بھی یعنی حسن ناصر جیسے لوگ بھی اِسی قِسم کی سیاست میں ضایع ہوئے۔ جِس چیز کو ہم آج ترمیم پسندی کہتے ہیں، اِس میں ہم بہت پہلے پڑ گئے تھے۔ اور حسن ناصِر کو جو قلعے میں جا کر مارا گیا اس کی وجہ بھی میرے خیال میں یہی تھی کہ ترمیم پسندی کا ہِمت بھرا جواب انہوں نے ضرور دیا ہو گا۔ مثلاً جب 1954 میں کیمونسٹ پارٹی کی تالہ بندی ہوئی، تو پنجاب وغیرہ کے کیمونسٹوں نے پارٹی تہہ کر کے الماری میں رکھی اور مِڈل کلاس نے معاشی دھندے شروع کیئے۔ تو حسن ناصِر اُن مُٹھی بھر لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کراچی میں پارٹی کا ڈھانچہ مقدور بھر برقرار رکھا اور زمینیں خرید کر کوٹھیاں کھڑی کرنے کی بجائے خود زیرِ زمین ہو گئے۔ یعنی پیدا تو ہوئے تھے فرسٹ کلاس جیل میں جانے والوں میں مگر کرتوت انہوں نے وہ نہیں رکھے جو فرسٹ کلاس میں سفر کرنے والے ’تحفظ پسند کیمونسٹوں‘ کے ہوتے ہیں۔ اِسی لیئے انہیں تھرڈ دگری بڑے زوروشور سے ہوئی‘۔
فیس بک کمینٹ