( گزشتہ سے پیوستہ )
بہرحال ساتھیو،
یہ عہدِحاضِر کے آذاد خیالوں کا ایک نمونہ تھا، جِس کا پیش کیا جانا اِس لیئے ضروری تھا کہ این ایس ایف کے انقلابی دوست آز اد خیالی کے رجحانات کو سمجھنے میں دیر نہ لگائیں۔ ماؤ زے تنگ نے بھی اپنےسات ستمبر کے مضمون میں ایسے رجحانات کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔ـ
آز اد خیالی نظریاتی جدوجہد کو ردّ کرتی اور ’غیر اُصولی امن‘ کی حامی ہوتی ہے۔ یہ ایک فرسودہ ذہنیّت اور عامیانہ رویّے کو جنم دیتی ہے اور پارٹی اور انقلابی تنظیموں کے بعض یونٹوں اور افراد میں سیاسی انحطاط پیدا کرتی ہے‘۔
غیر اصولی امن:
ساتھیو،
یہاں ماؤ نے ’غیراصولی امن‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ ’غیر اصولی امن‘ کیا ہوتا ہے؟ اِس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ ملک کے تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش، تعلیم اور مفت علاج معالجہ وغیرہ کو پورا کرنا حکومت کا آئینی فرض ہوتا ہے۔ یہ فرض حکومت پر اِس لیئے عائد ہوتا ہے کہ ہم اِن ضروریات کے حصول کے لیئے حکومت کو ہر طرح کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بجلی، پانی اور گیس کے بِلوں کی مد میں ٹیکس، خوراک اور روز مرہ کی ضروریاتِ ذندگی پرٹیکس، اور تو اور ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے تک جانے میں ٹیکس۔ مگر عوام کی قاتِل نجکاری (PRIVATIZATION) نے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو بھی ایک جِنس (PRODUCT) بنا دیا ہے؛ ایک ایسی جنس جو ہر گذرتے لمحے کے ساتھ عوام کی قؤتِ خرید سے باہِر ہوتی جا رہی ہے۔
تو کیا ہم نے پِچھلے کئی سالوں میں مقتدر طبقات کے اِس استحصال کے خِلاف کوئی ملک گیر احتجاج منظّم کیا؟
بد قسمتی سے نہیں کیا اور وہ اِس لیئے نہیں کیا کہ ہم پرامن شہریوں کی طرح ’شرافت‘ سے رہنا چاہتے ہیں۔ ساتھیو، اِسی ’شرافت‘ پر مبنی بزدلی کو ماؤ اپنے لفظوں میں ’غیر اصولی امن‘ کہتا ہے کہ جِس جگہ پر ہمیں جنگ کرنے کی ضرورت ہے وہاں جنگ نہیں کرتے اور غیر اصولی امن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماؤ کہتا ہے کہ ۔۔۔
’انقلاب بندوق کی نالی سے جنم لیتا ہے، دانشوروں کی باتوں سے نہیں‘۔
مگر ہم اپنے تساہل اور بزدلی کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم غریب کر ہی کیا سکتے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم غریب ہی تو ہیں جوایک روشن سماج کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ کیا اِس حقیقت کو جانے بغیر، ہم کو خود کو مارکسی کہہ سکتے ہیں؛ یعنی وہ حقیقت جو مارکس نے اِس طرح بیان کی ہے کہ ۔۔۔۔
’ہمارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو ساری دنیا‘۔
غرض ایسے غیر اصولی امن کے سب حامی آز اد خیال ہیں۔
آزاد خیالی کی فوری شناخت اور اُس کا جواب:
یوں تو نظریاتی جِدوجہد میں فوری طور پر کوئی حتمی رائے قائم کر لینا بجائے خود ایک غیر انقلابی عمل ہے۔ مگر آزا د خیالی کے رجحانات کی کُچھ ایسی نِشانیاں ضرور ہیں جو ایک انقلابی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ کہیں ان کو کِسی ایسی راہ پر تو ہانکا نہیں جا رہا، جِس کے آگے کوئی منزل ہی نہیں!
سب تو نہیں مگر ان میں سے کُچھ نشانیوں پر بات کی جا سکتی ہے۔
غیر ضروری بحث:
آزاد خیال رجحانات رکھنے والے بیشتر افراد اپنی اِسی عادت کی وجہ سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ ایک سیدھی سادھی اور مسلمہ حقیقت کو بھی مارکس، اینگلز، ہیگل، لینِن، سٹالن اور ماؤ وغیرہ کے حوالے دے کر، معاملات کو ایک ایسی نہج پر لے آتے ہیں جہاں سے کوئی نتیجہ خیز بات برآمد نہیں ہوتی۔ یہ انقلابی کیڈر کو ذہنی تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتے ہیں جو تنظیم کے نظم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ایسے عناصِر کے مفادات عموماً انقلابی جدوجہد کے طریقہء کار سے متصادم ہوتے ہیں۔ آزاد خیالی کی یہ قِسم ماؤ کے ستمبر پمفلٹ میں یوں بیان کی گئی ہے کہ ۔۔۔۔
’وہ باتیں تو مارکسزم کی کرتے ہیں مگر عمل آذاد خیالی پر کرتے ہیں۔ وہ دوسروں پر تو مارکسزم کا اِطلاق کرتے ہیں مگر اپنے اوپر آذاد خیالی کا۔ اِن کے گودام میں دونوں طرح کا مال ہوتا ہے اور وہ دونوں ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔ کُچھ لوگوں کے ذہن اِسی طرح کام کرتے ہیں‘۔
اِس طرح کی آذاد خیالی کا جواب براہِ راست طرزِ گفتگو ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک انقلابی کی گفتگو صرف ہاں کی جگہ ہاں اور نہ کی جگہ نہ ہوتی ہے۔ اِس سے ذیادہ گفتگو کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک انقلابی اپنے اصل مؤقف سے ہٹ جاتا ہے، آذاد خیالوں کی لچھے دار باتوں میں الجھ کر ذہنی کوفت کا شِکار ہو جاتا ہے جِس سے اُس کی انقلابی صلاحیّتیں متاثر ہوتی ہیں۔
انقلاب کو مافوق الفطرت فلسفہ بنا کر پیش کرنا:
مارکسزم ایک سیدھا سادھا نظریہ ہے جِس کا اطلاق عوامی جمہوری انقلاب کے ذریعے ابتدائی سطح پر مزدور راج قائم کرنا ہے۔ جبکہ ایک آزاد خیال عنصر، اِس سیدھے سادھے نظریئے کو ایک عجیب و غریب، انتہائی پیچیدہ اور مافوق الفطرت فلسفہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اِس کام کے لیئے ایک آذاد خیال کے پاس بہت سے تاریخی حوالے اور مشکل مشکل انقلابی اصطلاحیں ہوتی ہیں۔ وہ بڑے بڑے حوالے دے کر معاملات کو اتنا مشکل بنا دیتا ہے کہ کِسی کی سمجھ میں کچھ نہ آ سکے۔ آذاد خیالوں کی اِس قِسم کے بارے میں ڈاکٹر رشید حسن خان کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
’تاریخ اپنی پرانی غلطیوں کے اذالہ کے لیئے پڑھی جاتی ہے یا ماضی کے عظیم انقلابیوں سے حوصلہ افزائی حاصل کرنے کے لیئے۔ نہ تاریخ کوئی مزار ہے اور نہ انقلابی کوئی مجاور‘۔
اِس طرح کی آزاد خیالی کا جواب بحث و تمحیص کی بجائے عمل سے دیا جاتا ہے۔ جِدوجہد تیز کر دی جاتی ہے، اجتماعی مفادات کے عوامی پروگراموں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے اور عوام میں انقلابی پرچار کا احاطہ فوری طور پر بڑھا دیا جاتا ہے۔
انقلابی عمل کی حوصلہ شکنی کرنا:
ماؤ کہتا ہے کہ ’نوجوان کِسی بھی معاشرے کا باشعور اور متحرک ترین عنصر ہوتے ہیں۔ دوپہر کے سورج کی مانند طاقت اور توانائی سے بھرپور جو نہ صرف پرانا اور بوسیدہ نظام تباہ کر سکتے ہیں بلکہ اِس کی راکھ پر ایک روشن اور بہتر سماج بھی تعمیر کر سکتے ہیں‘۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ماؤ کے اِس قول میں نوجوانوں کی جو حوصلہ افزائی کی گئی ہے، کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ماؤ کے دور کے نوجوان ہر طرح کی غلطی سے پاک تھے؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ غلطیاں تو وہ بھی کرتے ہوں گے مگر انقلابی عمل میں نوجوانوں پر تنقید بھی اِس طرح سے کی جاتی ہے کہ ان کی حوصلہ شِکنی نہ ہو۔ مگر اِس کے برعکس آذاد خیال عناصر اپنی نکتہ چینی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انقلابی عمل میں نوجوانوں کی جدوجہد کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ
“KINGS DON’T DO MISTAKES”
اِس کے بظاہر لغوی معنی تو یہ ہیں کہ بادشاہ غلطیاں نہیں کرتے مگر اِس کی محاوراتی تفہیم یہ ہے کہ بادشاہ سِرے سے کِسی کام کے اہل ہی نہیں ہوتے اِس لیئے غلطیاں بھی نہیں کرتے۔ بعین اِسی طرح چونکہ نوجوانوں میں کام کرنے کی صلاحیّت ذیادہ ہوتی ہے لہٰذہ غلطیوں کے امکانات بھی نسبتاً ذیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے فِطری طور پر نوجوانوں خصوصاً طالبِ علموں میں لیاقت بھی ذیادہ ہوتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے مزدوروں اور کِسانوں کی انقلابی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ تیسرا مظہر یہ ہے کہ نوجوانوں میں چونکہ طاقت اور توانائی بھی ذیادہ ہوتی ہے اِس لیئے وہ میدانِ عمل میں تضاد کی صورت میں مزدروں اور کِسانوں کا ساتھ ز یادہ دلیری سے دیتے ہیں۔
( جاری ہے )
فیس بک کمینٹ