اسلام آباد : موجودہ قومی اسمبلی 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں عمل آئی تھی۔ اس کی مدت 25 جولائی 2023 کو مکمل ہو گی جس کے بعد نگران حکومت قائم ہو گی جو عام انتخابات کرائے گی۔
وزیراعظم عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کرانا چاہتے تھے۔ اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر یہ فیصلہ متحدہ اپوزیشن کرے گی کہ کب انتخابات کرائے جائیں۔اس سے قبل متحدہ اپوزیشن کی قیادت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ پہلے انتخابی اصلاحات لائیں گے جس کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اس حق میں ہیں کہ ضروری اصلاحات کے بعد کوشش کرنی چاہیے کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔
’پیشگی شرط انتخابی اصلاحات ہیں۔ یہ مراحل طے کرنے کے بعد فوری طور پر اس کی طرف رجوع کریں گے۔‘
بلاول بھٹو بھی اسی مؤقف کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انتخابی اصلاحات کے بعد شفاف انتخابات کی طرف بڑھیں گے۔ اس سے قبل انھوں نے سپریم کورٹ میں بھی الیکشن اصلاحات کے بارے میں سفارشات جمع کرائی تھیں۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھی طلب کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے جمعے کے دن ملکی صورتحال پر اجلاس طلب کر لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قبل از وقت الیکشن کرائے بھی جائیں تو یہ اکتوبر میں ہی ممکن ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا گیا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے چار ماہ کا وقت درکار ہے اس لیے اکتوبر تک ہی الیکشن ممکن ہو سکتے ہیں۔
اگر قبل از انتخابات نہیں ہوئے تو اگلے ڈیڑھ سال کی مدت میں حکومت جب چاہے انتخابات منعقد کرا سکتی ہے۔انتخابات سے قبل وزیراعظم قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگراں وزیراعظم کو تعینات کریں گے، جس کے بعد تین ماہ کی نگران حکومت قائم ہو گی جو عام انتخاب کا انعقاد کرے گی اور اکثریت ثابت کرنے والی جماعت کو اقتدار سونپا جائے گا۔