لاہور:وفاقی حکومت کے اتحادی اور نئی تشکیل کردہ جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے صدر کو بڑا ریلیف مل گیا اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے نئے قانون کے تحت ان کے خلاف زمینوں پر مبینہ قبضے اور تجاوزات کے خلاف تحقیقات بند کردیں۔
معروف پراپرٹی ٹائیکون علیم خان پر الزامات تھے کہ انہوں نے پارک ویو ولاز لاہور کے نام پر ریور ایج ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے عوامی گزرگاہوں پر غیر قانونی قبضہ اور توسیع کی جبکہ اسلام آباد میں بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کی غیر قانونی توسیع کی جبکہ انہوں نے حکام کی منظوری کے بغیر ہی پلاٹ فروخت کرکے عوام سے پیسے بٹورے۔
اس کے علاوہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے اعتراض عائد کیا تھا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی دریا کنارے زمین پر موجود ہے جسے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
ایل ڈی اے نے مؤقف پیش کیا کہ دریا کنارے آبادی بنانے سے عوامی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے علاوہ اس زمین کا شمار زرعی زمینوں میں ہوتا ہے اور یہ شہری آبادی نہیں بن سکتی اسی لیے اس منصوبے کی منظوری نہیں دی گئی تھی، اس کے باوجود ملزمان (علیم خان و دیگر) نے متعلقہ علاقے میں پلاٹس کی فروخت شروع کردی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ حتمی تحقیقاتی رپورٹس کے حقائق اور ایگزیکٹو بورڈ کی سفارشات نے واضح کیا ہے کہ قومی احتساب (ترمیمی) ایکٹ 2022 کی شق 31-بی (1) کے تحت علیم خان کے خلاف تحقیقات بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
تاہم ذرائع کے مطابق نیب نے علیم خان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا مقدمہ بند نہیں کیا، جس کے تحت انہیں 2019 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی وزیر تھے۔
نیب ریکارڈ کے مطابق علیم خان نے اندرونِ اور بیرونِ ملک آمدن سے زائد اثاثے بنائے ہیں، علیم خان نے ریئل اسٹیٹ کاروبار کی غرض سے متعدد کمپنیاں قائم کیں اور ان میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی، انہوں نے لاہور کے مختلف اضلاع میں اپنی کمپنی میسرز اے اینڈ اے پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام پر 900 کنال سے زائد زمین خریدی اور مزید 600 کنال اراضی کے لیے ایڈوانس رقم بھی ادا کی جس حوالے سے سرمایہ کاری کی تفصیلات وہ فراہم نہیں کرسکے۔
نیب نے مؤقف اپنایا کہ 6-2005ء میں اندرونِ ملک اثاثے بنانے کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں آف شور کمپنیاں بھی بنائیں، ان آف شور کمپنیوں میں بڑی مالیت کے اثاثے موجود تھے جو علیم خان کی آمدن سے زائد ہیں۔
حال ہی میں نیب نے 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف کرپشن کی تحقیقات بند کردیں، جس پر نیب نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ (ان کے خلاف) کرپشن کے کوئی بھی شواہد ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔
قومی احتساب آرڈیننس 1999ء میں متعارف کردہ نئی ترامیم جس کے تحت وزیراعظم اور ان کے خاندان کو بری کردیا گیا تھا جبکہ موجودہ حکمران اتحاد کی جانب سے نیب قوانین میں ترمیم کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما اس سے مستفید ہورہے ہیں۔
(بشکریہ:ڈان نیوز)
فیس بک کمینٹ