ڈاکٹر مختار ظفر کی کتاب کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان ، وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار راجن پور تشریف لائے ان کے ساتھ وفاقی و صوبائی وزیر صحت بھی تھے ‘ مگر انہوں نے نہ تو پسماندہ علاقے راجن پور کیلئے کسی پیکج کا اعلان کیا اور نہ ہی اپنے وعدے کے مطابق صوبے سے متعلق کوئی بات کی ۔ راجن پور کے لوگوں کا گیس ‘ یونیورسٹی کا مطالبہ تھا ، انڈس ہائی وے پر روز حادثات ہو رہے ہیں ‘ دربار فرید کے مسائل ہیں ‘ بقول وزیراعلیٰ یہ پسماندہ ضلع ہے کہ لاہور پر فی کس 96 ہزار اور راجن پور میں 4 ہزار خرچ کئے گئے ۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا تعلق اسی خطے سے ہے ‘ انہوں نے پسماندگی ختم نہ کی توپھرکون ختم کرے گا؟ اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں‘ ملتان کے معروف ریسرچ سکالر و ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مختار ظفر کی کتاب ’’ ملتان کی شعری روایت ‘‘ در اصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ۔ ڈاکٹر مختار ظفر اپنی کتاب کا آغاز خواجہ فریدؒکے شعر ’’ اتھ درد منداں دے دیرے ، جتھ کرڑ کنڈا بٖوئی ڈھیرے ‘‘ سے کر کے گویا خواجہ فرید سے اپنی عقیدت مندی کے ساتھ سرائیکی کے عظیم صحرا چولستان سے بھی اپنی محبت کا ثبوت دیا ۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خواجہ فرید کے مذکورہ بالا شعر اور احمد فراز کے شعر ’’ ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی ‘‘ کا مفہوم ایک جیسا ہے مگر ماں دھرتی سے محبت کے خمیر میں گندھے ہوئے خواجہ فرید کے شعر کا مقام احمد فراز کے شعر سے بہت اونچا ہے ۔ ان سطور میں تقابلی جائزہ مقصود نہیں صرف اتناعرض کرنا ہے کہ ڈاکٹر مختار ظفر نے روہی کے ’’ کرڑ کنڈے اور بٖوئی ‘‘ سے بسم اللہ کی ہے تو اس کی کوئی وجہ ؟ جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ ڈاکٹر مختار ملتان میں بستے ہیں لیکن ان کے اندر چولستان بستا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے بزرگ مشرقی پنجاب سے چولستان کے علاقہ حاصل پور میں آباد ہوئے ، ستلج کے ہٹھاڑ میں ان کو رقبے ملے ۔ ستلج جب ٹھاٹھیں مار کر بہتا تھا اس کا جوش اور جوانی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ میں ابھی چھوٹا تھا کہ ہمارے پڑوس میں مقامی ہٹھاڑی بھائیوں کی شادی ہوتی تو میں بھاگ کر وہاں پہنچتا ، سرائیکی گیت ، سرائیکی جھمر اور شادی کی مقامی رسمیں مجھے مسحور کر دیتیں ۔ میرا بہت دل کرتا کہ میں اٹھوں اور رقص میں شامل ہو جاؤں مگر جس ترتیب اور ردھم سے وہ جھمر کھیلتے اور ساتھ ساتھ میٹھے سرائیکی گیت گاتے وہ مجھے نہ آتے تھے لیکن یہ ضرور ہوا کہ سرائیکی تہذیب ، ثقافت اور زبان کی مٹھاس میری روح میں رچ بس گئی، اور میری یہ کتاب ’’ ملتان کی شعری روایت‘‘ اس کا ایک ادنیٰ سا اظہار ہے ۔ ڈاکٹر مختار ظفر یہ بھی بتاتے ہیں کہ میری آباد کار بھائیوں کیلئے درخواست اور مشورہ یہ ہے کہ باہر سے آنیوالے تمام بھائیوں کو سرائیکی جھومر میں اتنی محبت اور اتنے انہماک سے شریک ہوجانا چاہئے کہ نئے اور پرانے سرائیکی ملکر کہہ سکیں کہ ’’ ہنْ میں رانجھنْ ہوئی ، ریہا فرق نہ کوئی ‘‘۔ ڈاکٹر مختار ظفر نے’’ ملتان کی شعری روایت ‘‘میں جہاں معروف شعرا عبداللہ نیاز، اسد ملتانی ، علامہ طالوت ، کشفی ملتانی ، کیفی جام پوری اور شفقت کاظمی کے فن و فکر کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے وہاں ملتان کے بارے میں بھی درد مندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کائنات کی وسیع ترین تہذیبی سلطنت کو ایک محض چھوٹے سے ضلع تک محدود کر کے ’’پنڈ ‘‘ بنا دیا گیا ہے ۔
اس بارے میں معروف ادیب محترم شمیم ترمذی نے بجا طور پر لکھا کہ ’’ چونکہ ان قلم کاروں کا تعلق ’’ اردو شہر ‘‘سے نہیں ’’ ملتانی گاؤں ‘‘سے تھا ، اس لئے ان کی اردو تخلیقات کو بھی ان کے ماحول ، ان کے مقامی حوالے سے پرکھا گیا ‘‘ اس سلسلے میں میری گزارش محض اتنی ہے کہ آج ملتان کو کوئی پنڈ کہتا ہے تو کوئی گاؤں ۔ اس میں قصور جاگیرداروں ، تمنداروں کے ساتھ ساتھ ان ادیبوں اور قلمکاروں کا بھی ہے جو اپنی مٹی ، اپنی دھرتی اور اپنے وسیب کو بے توقیر کرنے کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اور آج بھی غلام بنے ہوئے ہیںاور خاموش ہیں ۔ اس خاموشی کو ہم کیا نام دیں کیا اس کیلئے بھی ڈاکٹر مختار ظفر ایک اور ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھیں ؟ جو لوگ ملتان کو ایک گاؤں یاپنڈ کہتے ہیں میں ان کو بتاتا ہوں کہ ملتان کیا ہے ؟’’تاریخی اعتبار سے ملتان ایک ذات نہیں ایک کائنات کا نام ہے ۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملتان کائنات کے اُن چند خاص شہروں میں سے ایک ہے جو ہزارہا سالوں سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔ماہرین کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ تاریخ عالم میں ملتان صرف ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب ایک معاشرت اور ایک سلطنت کے طور پر کرہ ارض پر موجود رہا ۔ 373ھ کی ایک تصنیف ’’حدود العالم بن الشرق الی الغرب‘‘ میں سلطنت ملتان کے بارے لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک اور کتاب ’’سیرالمتاخرین‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے، ایک طرف ٹھٹھہ ، دوسری طرف فیروز پور ، جیسلمیراور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل ہیں۔ابوالفضل کی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں بھی ملتان کی یہی حدود درج ہیں ۔‘‘ جس طرح خوشبو اپنا تعارف آپ ہوتی ہے اسی طرح ڈاکٹر مختار ظفر کی شعری روایت بھی اپنا تعارف آپ ہے ۔ مگر میں چاہوں گا کہ ملتان کی سرائیکی شعری روایت جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے بارے بھی کچھ لکھیں اور اگر زیادہ نہیں تو چند سو سالوں پہلے کے سرائیکی شعراء بہاء الدین زکریا ، حضرت شاہ شمس ملتانی ، حافظ جمال اللہ ملتانی ، علی حیدر ملتانی ، صابر ملتانی ، بہار ملتانی ، طالب ملتانی ، ڈتن ملتانی ، کمتر ملتانی ، عاشق ملتانی ، بسمل ملتانی ، شاغل ملتانی ، عاجز ملتانی ، گانمن ملتانی ، شاہ ولایت ملتانی ، دلجوش ملتانی ،عبرت ملتانی ، ناطق ملتانی ، نظام ملتانی ، صالح ملتانی ، خادم ملک ملتانی ، عیسن شاہ ملتانی ،فرحت ملتانی ، امید ملتانی ، حیات ملتانی ، ارشد ملتانی اور بہت سے دوسروں بارے تو ضرور لکھیں ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ