چند ماہ پہلے کی بات ہے میری شاپ پر بزرگ میاں بیوی تشریف لائے ۔خاتون نے آ کر اپنا تعارف کروایا کہ میں منیر فاطمی کی بہن ہوں۔شادی کے بعد کراچی چلی گئی تھی اور اب ہم مستقل ملتان آ گئے ہیں ۔بہت مشکلوں کے بعد آپ کا رابطہ ملا ہے۔تو بھائی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ بزرگ خاتون کو میں نے باجی کہہ کر بلایا تو وہ خوش ہو گئیں کہ چلیں کسی نے بھائی کے حوالے سے مجھے بہن کہہ کر تو پکارا ،اس نشست میں انہوں نے اپنے بھائی کی بالکل نئی باتیں بتائیں جو ہماری نظر سے پوشیدہ تھیں ۔پھر کہنے لگی کہ میرا نام غلام فاطمہ زہرا ہے ۔اور میرے بھائی کو اپنی بہنوں سے بہت پیار تھا ۔وہ ہمیں خود سکول اور کالج لے جایا کرتے تھے اور واپس گھر چھوڑا کرتے تھے ۔معلوم نہیں میرے بھائی کو کس کی نظر کھا گئی کہ وہ جوانی میں ہم سے جدا ہو گیا ۔انہوں نے کہا میرا جی چاہتا ہے میں اپنے بھائی کی ساری کتابیں دوبارہ سے شائع کراؤں ۔اس نشست میں انہیں طے کیا فوری طور پر "دیواروں کے پار "سب سے پہلے شائع کیا جائے گا ۔نئے ایڈیشن کے لیے انہوں نے مضمون لکھا ۔جس میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا۔کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے تنظیم بنانا چاہتی ہیں کانفرنس کرنے کا خیال ہے اور اور زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی مالی امداد کا منصوبہ ہے۔”دیواروں کے پار "جب شائع ہو کر آئی تو وہ بہت خوش ہوئیں ۔کہنے لگی اس کی تقریب کرتے ہیں۔تاکہ منیر فاطمی لوگوں کو دوبارہ یاد آجائے ۔جس پر میں نے کہا کہ یاد تو اسے کیا جاتا ہے جو بھول جائے۔منیر فاطمی آج بھی ملتان کے ادب کا حصہ ہیں اور اہل علم آج بھی ان کو بہت محبت سے یاد کرتے ہیں۔منیر فاطمی کی کتاب شائع ہونے کے بعد ان کی بہن نے کہا یہ کتاب ملتان کے دوستوں کو دی جائے اور ہم بہت جلد منیر فاطمی کی یاد میں تقریب بھی رکھتے ہیں۔
اس سے ملاقات میں غلام زہرا نے بتایا کہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں۔اکثر جب بیماری کا غلبہ ہوتا ہے تو میں گھر میں آرام کرتی ہوں۔شدید گرمی کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا نہ ہو سکا اور میں بھی زمانے کی فضول مصروفیات میں گرا رہا اور ایک عرصہ ہو گیا ہے ان سے ملاقات نہیں ہو پائی ۔لیکن منیر فاطی کی شاعری ان کی نثرمیرے سامنے رہتی ہے۔کہ لکھنے والے کو مرنے کے بعد ان کی تخلیقات ہی تو زندہ رکھتی ہیں ۔
منیر فاطمی کا اصل نام منیر حسین شاہ تھا جو 11 ستمبر 1948 کو ملتان میں پیدا ہوئے ۔ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن انہوں نے سرائیکی کے علاوہ اردو کو بھی ذریعہ اظہار بنایا۔آغاز میں انہوں نے اپنا قلمی نام ساحر بخاری رکھا بعد میں معلوم ہوا اس نام سے ملتان میں ایک اور شاعر بھی موجود ہیں تو تب انہوں نے اپنا نام ساحر بخاری سے تبدیل کر کے منیر فاطمی رکھ لیا ۔1978 میں وکالت کا اغاز کیا ۔اس سے قبل ان کے سگے ماموں جسٹس کمال مصطفی عدلیہ میں اہم عہدے پر فائز تھے۔ان کا شمار ملتان کے ان شب نوردوں میں ہوتا ہے جو ساری رات گھر سے باہر گزارتے تھے لیکن صبح وقت پر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے۔آپ کی زیادہ تر نشستیں دہلی مسلم ہوٹل حسین اگاہی میں رہیں، جہاں پر معروف ادبی ستارے عتیق فکری، ارشد ملتانی، اسلم انصاری، طاہر کپور تھلوی، مرزا انور بیگ ،سجاد بریلوی اور حبیب فائق موجود ہوتے تھے۔
ان کا پہلا مجموعہ کلام ادراک 1971 دوسرا مجموعہ کلام مجموعہء خیال 1975 سرائیکی مجموعہ کلام بلدے پچھتاویں 1984میں چوتھا مجموعہ غزلیات شہر شب 1978 پانچویں کتاب سفرنامہ گرد باد 1987چھٹا مجموعہ غزلیات شب تاب 1988 دو سفر ناموں کا مجموعہ دیواروں کے پار 1990 اور 2022 جبکہ سفر نامہ بھارت خواب سفر 1985 میں شائع ہوا ۔ہفتہ وار روزنامہ امروز میں ملتان نامہ کے نام سے ادبی کالم بھی لکھتے رہے ۔13 جولائی 1990 کو رشتہ ازدواج منسلک ہوئے۔جبکہ 21 مارچ 1995 کو انتقال کیا ۔اپ کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں قبرستان سیدوں والا رحمت کا لونی ملتان میں سپرد خاک کیا گیا۔
یہ عجیب اتفاق ہے اور ملتان کے اہل ادب کی بدقسمتی ہے کہ مارچ اپریل 1995 کے کے قلیل عرصہ میں ان کو مہر عبدالحق، محسن گردیزی اور منیر فاطمی جیسے بزرگ و جوان ادیبوں سے محروم ہونا پڑا۔ ان تینوں کے نام میم سے شروع ہوتے ہیں۔محسن گردیزی کے جنازے میں مَیں شریک تو ہوا لیکن اس کی میت کو کاندھا نہیں دیا کوشش بھی کی لیکن حوصلہ نہیں پڑا۔ اپنے ہم عمر، ہم عصر کے ساتھ مشاعرہ پڑھنا تو اچھا لگتا ہے لیکن اپنے جیسے کا جنازہ پڑھنا بڑا مشکل کام ہے۔ ابھی میں محسن گردیزی کی یادوں کو تازہ کر رہا تھا کہ منیر فاطمی اچانک چلے گئے۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ منیر فاطمی کی زندگی پر یا ان کی شاعری پر مضمون لکھوں گا۔ وہ ملتان کے نہیں بلکہ پاکستان کے معروف شاعر تھے لیکن میرا ان کے ساتھ کوئی ایسا رابطہ نہیں تھا کہ ان کی شاعری اور ان کے سفر نامے پر میں اظہار خیال کرتا۔ وہ تو حسین سحر، اقبال ارشد، ڈاکٹر محمد امین، اور تابش صمدانی کے ہم عصر تھے۔ خوبصورت شاعر تھے اچھے نثر نگار تھے، ان کی شاعری پر جابر علی سید، ظہیر کاشمیری جیسے ادیبوں نے لکھا تو ان ناموں کے سامنے میری رائے کی کیا حیثیت ہے۔ وہ خاکے لکھتے رہے۔ ادبی کالم جب لکھے تو ایک الگ شناخت بنائی۔ سفر نامے لکھے تو خوب داد پائ۔ وکالت میں نام کمایا۔ اتنی عزت، شہرت پانے کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے منیر فاطمی نے یہ تمام سفر خواب میں طے کیا کیونکہ جو شخص سولہ سال کی عمر میں اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’خیال‘‘ شائع کروا لے اس کے بعد ادراک، شہر شب ، شب تاب شاعری کے اور دو کتابیں سفر ناموں پر مشتمل ہیں تو اتنی تیزی سے ادبی سفر طے کرنے والا منیر فاطمی آخرت کے سفر میں بھی سب سے تیز نکلا اور اس کے دوست ساتھی حیران ہیں کہ وہ منیر فاطمی جو صرف دوستوں کی وجہ سے شاہ رکن عالم کالونی میں اپنا بنایا ہوا مکان کرایہ پر دے آیا کہ وہاں پر جانے کے بعد دوستوں سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ قبر میں اکیلا کیسے رہ سکے گا۔ مجھے تو منیر فاطمی کی موت بھی ایک خواب ہی لگتی ہے۔
منیر فاطمی سے میری پہلی ملاقات حسین سحر نے کچہری میں کرائی کہ کبھی کبھار مجھے گھر کی بعض دستاویزات پر اوتھ کمشنر کی تصدیق کروانی پڑتی تھی اور ان دنوں منیر فاطمی اوتھ کمشنر تھے۔ بس میں نے ان کے ہاں جانا، چائے کا ایک کپ پینا، گپ شپ لگانی اور آ جانا۔ کبھی کبھار کسی مشاعرہ میں کسی کتاب کی رونمائی میں ان سے ملاقات ہو جاتی۔ کچہری میں منیر فاطمی وکالت کا لباس پہنے خاصے سمارٹ لگتے تھے۔ اوپر سے ان کاگورا رنگ لمبا قد اوربات کرنے کا خوبصورت انداز۔ یہ سب منیر فاطمی کی شخصیت کا خاصا تھا۔
ایک بار میرا لاہور جانا ہوا تو میرے ساتھ سبطین رضا لودھی اور اعجاز احمد تھے۔ خانیوال میں جا کر اترے تو پلیٹ فارم پر منیر فاطمی سے ملاقات ہو گئی ۔میں نے منیر فاطمی سے کہا کہ اب سامان لے کر ہمارے پاس آ جائیں کیونکہ سیٹ بھی موجود ہے اور گپ شپ بھی رہے گی۔ اسی ملاقات میں پتہ چلا کہ وہ ’’شام و سحر‘‘ کے مدیر رہے ہیں۔ اس میں انہوں نے چہرے کے عنوان سے مختلف ادیبوں اور شاعروں کے خاکے بھی لکھے جن کو وہ کتابی شکل میں لانا چاہتے تھے لیکن معلوم نہیں بعد میں خاکوں کی کتاب کے علاوہ وہ اپنی شاعری کی کتاب لے آئے۔ گاڑی میں جو بھی پھیری والا آتا وہ پہلے اس سے گپ شپ کرتے اور پھر کبھی چنے، کبھی امرود تو کبھی بسکٹ خرید کر خود بھی کھاتے اور ہمیں بھی شریک کرتے۔ رات گئے لاہور آنے کے آثار شروع ہوئے تو انہوں نے لاہور کینٹ کی نہر کو دیکھتے ہی کہا شاکر یہ وہ نہر ہے جہاں میں اور ناصر کاظمی اکثر رات کو بیٹھا کرتے تھے شاعری کرتے تھے اور گرمیوں کے موسم میں تو ساری ساری رات شعر سنتے اور سناتے رہتے تھے۔ بڑے اچھے دن تھے۔ اب لاہور میں اس دور کے لوگ تو ہیں لیکن اب وہ بات نہیں ہے راتوں کو نہر کنارے نشست لگے۔ اسی دوران لاہور آ گیا اور یہ کہہ کر اجازت لی کہ اب ملتان میں ملاقات ہوگی۔
ملتان میں اکثر میرے شوروم آ جاتے کبھی اکیلے یا پھر کسی نوجوان شاعر کے ساتھ۔ درمیان میں ایک عرصہ انہیں پرانے ماڈل کی کار کا شوق چرایا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا منیر فاطمی پیدل ہی آگئے۔ میں نے کار کا پوچھا تو جواب ملا فروخت کر دی۔ بیماری کی وجہ سے سکوٹر نہیں چلا سکتا اس لئے آج دل کر رہا تھا تم سے ملاقات کرنے کو، اسی لئے میں آ گیا۔ پھر گھنٹہ بھر بیٹھے رہے۔ انہی دنوں لاہور میں منیر فاطمی کی کتابوں خواب سفر اور گردباد کو اکٹھا سنگ میل پبلی کیشنز نے ’’دیواروں کے اس پار‘‘ کے نام سے شائع کیا تو وہ کتاب انہوں نے پہلی بار میرے پاس ہی دیکھی تو بڑے خوش ہوئے میں نے کہا آج آپ یہاں نہ آتے تو کتاب نہ دیکھ پاتے کیونکہ آپ کے پاس کتاب تو لاہور سے آنی تھی جس کو آتے آتے ہفتہ تو لگ جانا تھا پھر اپنی کتاب کو دیر تک دیکھتے رہے اور کہنے لگے لاہور والوں کو کتاب شائع کرانے کا پھر اس کو فوری طور پر تقسیم کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا میری کتابوں کی بھی سیل ہے۔ تو میں نے کہا خواب سفر تو خوب سیل ہوا ہے لیکن آپ کی شاعری تو بس ایسی ہے جیسے ملتان کے شاعروں کی ہونی چاہئے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کہا تمہیں باتیں کرنی آتی ہیں ورنہ ملتان میں ہونے والی شاعری کسی بھی شاعری سے کم نہیں ہے۔ بس ذرا ملتانیوں کو ذرائع ابلاغ نہ ہونے کی وجہ سے باتیں سننی پڑتی ہیں ورنہ میرے ملتان میں شاعری بڑی اچھی ہو رہی ہے۔
منیر فاطمی کی یادوں کو تازہ کروں تو یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا منیر فاطمی کی یہ عمر تھی کہ ان پر تعزیتی مضمون لکھا جاتا۔ منیر فاطمی اتنا بوڑھا ہو گیا تھا کہ دوست احباب اس کے جنازے میں شریک ہوتے۔ کیا منیر فاطمی تمہارے دونوں چھوٹے بچے اس قابل ہو گئے تھے کہ وہ خود سکول چلے جاتے وہ تو ابھی گھر کے آنگن میں تمہارا انتظار ہی کرتے ہیں وہ تو ابھی بولنا سیکھ رہے ہیں۔ منیر فاطمی تم ساری عمر خود پڑھتے رہے پڑھاتے رہے اب تمہارے بچوں کو سکول چھوڑنے کون جائے گا۔ ان کے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی ہے وہ پہلے قبرستان کا راستہ دیکھیں گے بعد میں سکول جائیں گے۔
منیر فاطمی یہ مضمون میں نے نہیں لکھنا تھا کیونکہ تمہاری شاعری اور سفرناموں پر عرش صدیقی، عاصی کرنالی، حسین سحر، اقبال ارشد، ارشد ملتانی، انوار احمد، اقبال ساغر صدیقی، طاہر تونسوی اور دوسرے بے شمار مضامین لکھتے لیکن یہ مضمون مجھ سے نہیں لکھا جا رہا کیونکہ تمہاری عمر تم پر تعزیتی مضمون لکھنے کی نہیں بلکہ یہ عمر تو اپنے آپ کو منوانے کی عمر تھی۔ منیر فاطمی تم ایک اچھے شاعر، خوبصورت کالم نگار اور بہترین نثر نگار ہو۔تمہیں اپنے آپ پر مضمون لکھوانا مقصود تھا تو ویسے کہہ دیتے لیکن مرنا تو نہیں تھا۔ ابھی اہل ملتان کو تمہاری ضرورت تھی اس لئے منیر فاطمی واپس آ جاؤ تم پر میں تعزیتی مضمون نہیں لکھ سکتا۔ شاعری اور سفرناموں پر بے شمار مضمون لکھ سکتا ہوں لیکن تمہاری موت پر مضمون نہیں لکھ لکھا جاتا۔ تمہاری دس بارہ کتابیں ہو جاتیں۔ سر کے سیاہ بال سفید ہو جاتے۔ بچے جوان ہو جاتے تو پھر چلے جاتے۔ پھر یہ مضمون بھی اچھا لگتا
فیس بک کمینٹ