رات کا آخری پہر ہے، یہ دنیا کے خوبصورت ترین دارالخلافہ کے خوبصورت ترین علاقے میں موجود گھر کی ایک کھڑکی کے باہر کا منظر ہے، شدید بارش ہورہی ہے،دور پہاڑوں کا حسین منظر سامنے ہے ، ٹھنڈی ہوا اور مہکتی خوشبو کمرے کو تسکین دے رہی ہے۔ آج ہی ملتان سے واپس لوٹا، پورے راستے ایک ہی خیال ستاتا رہا کہ سوائے ماں باپ کے اس شہر میں رکھا کیا ہے۔ وہی جو اس کی پہچان تھی، گرد، گرما، گدا و گورستان۔ ان سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا؟ کتنے بڑے وزیر اس شہر سے آئے اور چلے گئے، سب سے لمبے عرصے تک رہنے والا جمہوری وزیر اعظم تک اسی شہر اور میرے سکول کا تھا، مگر بدلا کیا؟ وہی ٹوٹی سڑکیں، وہی بے ہنگم موٹر سائیکلوں کی بھرمار ، وہ گدھا گاڑیاں، وہی جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، وہی غربت، افلاس، بے چارگی اور سب سے بڑھ کر وہی تعلیم،صحت ،روزگار سے عاری عوام۔ یہ وہ شہر ہے جو جنوبی پنجاب کا دارالخلافہ کہلاتا ہے کہ جہاں بلوچستان اور اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں سے اٹھ کر لوگ صحت،تعلیم اور روزگار کے لیے آتے ہیں۔ کون اپنی دھرتی چھوڑ کر دور جاتا ہے، مگر آج واپس لوٹنے کا دل نہیں کرتا۔ جس سرکاری ہسپتال میں کام کرتا تھا، وہاں سہولیات کا فقدان اس قدر شدید تھا کہ کبھی کبھار اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی تھی، اوپر سے شدید ترین تعلیم کی کمی کا شکار جہالت پر مبنی مریضوں کے لواحقین کے رویے،عجیب و غریب سوالات اور کنویں کے اندر ہونے والی الگ طرح کی سیاست۔ یہاں آیا ، موسم بدل گیا، مواقع بدل گئے، مریضوں کے لواحقین کے سوالات وہی رہے، مگر رویے کچھ بدل گئے اور جہالت میں بھی تھوڑی تھوڑی تعلیم کی بوندیں بنجر دالان پر پڑنے لگیں تو وحشت ویسی نہیں رہی۔ یہاں بھی سیاست تھی، ٹانگیں اسی طرح کھینچ کر گرانے کے تسلسل تھے، خواتین بھی اس سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر شریک تھیں، مگر جب آپ نے خراب ترین روڈ پر گاڑی چلانے کا ہنر سیکھ لیا ہو ،تو صاف سڑک پر یہ رکاوٹیں بخوبی عبور ہوجاتی ہیں۔ آج بھی یاد ہے کہ کتنی بار میں نے اپنے وسیب کے باسیوں سے کسی ستر سال کے کینسر زدہ مریض کی موت پر اپنا گریبان چھڑایا ، کتنی بار انہیں بتایا کہ دودھ سے دوائی کھانے سے پیپ نہیں پڑتی، بچے کم پیدا کرنے سے عورت کو کینسر نہیں ہوتا، آٹے میں رکھی گولیاں کھا کراور تیزاب پی کر آنے والی بچیاں، محرومی کی موت مرتی ہیں،انہیں ہسپتال لا کر کوئی جادو نہیں ہوجاتا، خون لگاتے اس پر چادر ڈال دینے سے کوئی نظر چلنے رکنے کا عمل نہیں ہوتا، ہسپتال میں کالے جادو ٹونے اور دم دورود والے بابا جی کو مت لائیں۔اس سب پر ہمیشہ دھکے پڑے، لواحقین کی گالیاں پڑیں، جہد کے چکروں میں خود بھاگ گیا، مگر جہالت سے نہ لڑسکا۔ میرے والد شہر کے معروف میڈیکل سپیشلٹ ہیں، ساری زندگی ایسے ہی رویوں سے لڑتے گزار دی، مجھے اکثر سمجھاتے، بیٹے یہاں مریض دوائی کے ساتھ تسلی بھی لینے آتے ہیں، دے دیا کر۔ مگر کبھی کبھی میں سوچا کرتا کیسی تسلی، ان رویوں کی تسلی جو جہالت کی آمیزش میں آپ کی تعلیم کو چاٹنے لگ جائے۔ پہلے لگتا تھا ،کہ میں غلط تھا، پھر ایک واقعہ سامنے آیا اور مجھے یقین ہوچلا کہ کچھ معاملات میں غلط سہی، کچھ میں میرا نظریہ بالکل ٹھیک ہے۔ جہاں جہالت ہو، وہاں سوشل میڈیا اور چند رویوں کا پروان چڑھنا بہت بھیانک روپ اختیا رکر سکتا ہے۔ ملتان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے پر و وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود، جن کو میں نے اس وقت سے گھر کے ڈرائنگ روم میں والد کے ساتھ ایسے ہی رویوں پر جہاد کرتے سنا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ پروفیسر اعجاز ملتان میں سرطان کے شعبے کا بہت بڑا نام ہیں۔ ملتان میں کینسر کے یونٹ کو دنیا کے جدید ترین یونٹس کے مقابل لانے کے لیے ان کی خدمات بھی گراں قدر ہیں۔ ان کے پاس ایک شخص ،اپنی چھاتی کے سرطان میں مبتلا بیگم کو علاج کے لیے آتا ہے۔ ان کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں اور علاج شروع کردیا جاتا ہے۔ آخری سٹیج کا کینسر کہ جس میں کینسر پھیپھڑوں اور دماغ تک پھیل گیا ،اس کا علاج کتنا سود مند ہوگا؟ مگر وہی تسلی اور جہالت سے جہاد کی روش کہ مایوس نہیں ہونے دینا۔ یہ سب پیسوں نہیں ،امید کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس شخص کی بیوی مر جاتی ہے اور وہ شخص پروفیسر اعجاز کو پرائیوٹ اور سرکاری ہسپتال میں ہراساں کرنے لگ جاتا ہے کہ میری بیگم کو فلاں ڈاکٹر نے ٹی بی بتائی تھی، آپ نے غلط علاج کیا،آپ مافیا ہو۔ ایسے میں وہ ملک کہ جہاں ہیلتھ کئیر پروفیشنلز کے لیے کوئی قانون سازی نہ ہو، ایک ڈاکٹر کیا کرسکتا ہے، جہالت کا جواب ،تعلیم میں بھی دے تو مہذب قسم کی کسی گالی سے زیادہ کیا؟ جنوبی پنجاب، جہالت اور ڈاکٹر، ہیبت ناک امتزاج کی آڑ میں وہ شخص ، پروفیسر اعجاز کو ملتان میں گھنٹہ گھر کے قریب گولیاں مار دیتا ہے، اور کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر وڈیو اپلوڈ کرکے،اپنے جاہل لہجے میں ،اس عمل کو صحیح قرار دیتا ہے،وہی باتیں دہراتا ہے اور آخر میں کہتا ہے کہ آپ ایسے مریض کو ڈاکٹر کے پاس نہیں مدینہ لے جائیں، ڈاکٹرز مافیا ہیں۔ میں اور میری اہلیہ ایک سوشل میڈیا کے بڑے نجی چینل پراینکر پرسن ہیں،ہم ایک لائیو شو میں اس جہالت کو بیان کرتے ہیں تو جواب میں اکثریت اس شخص کے عمل کی حمایت کرتی ہے۔ مطلب جہاں جہالت بکتی ہو،وہاں کچھ بھی بک جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور اسی میں پروان چڑھتے جہال زدہ معاشرے میں جہاں پرانی سرکارایسی ہی عوام کو خوش کرنے کے قائد اعظم میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ہارون پاشا کو ایک وڈیو کانفرنس میں عہدے سے اس لیے برخاست کردیتی ہے کہ وہ کانگو کے مریض کی ہسپتال میں انٹری سے نہ روک سکے اور اس پر عوام میں غصہ تھا، وہیں رحیم یار خان میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مبارک علی اپنی کالج کے لیے کی خدمات بیان کرتے کنویں کے اندر ابال میں کی گئی سیاستوں کا گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسر مبارک علی نے رحیم یار خان ہسپتال میں ایمرجنسی سروسز، میڈیکل ایچ ڈی یو، آپریشن تھیٹرز، لیبر رومز، لیپرو سکوپک سرجری، ڈائیلا سز، ایندوسکوپی سوٹ، مرگی کلینک، آنکھوں کے شعبے کے عروج، تحقیق، مریض ٹوکن سسٹم، پھیپھڑوں، دل کے شعبوں سمیت بے پناہ کام کیا۔ پھر میڈیکل کالج کے لیے بلڈنگ کو نئی شکل دینے ، پلے گراﺅنڈز، نئے ہاسٹلز ، شاپنگ مارٹس ،کیفیٹیریا ، ایک لاکھ گیلن صاف پانی کے پلانٹس سمیت اور بھی بہت کچھ کیا۔ پروفیسر مبارک کو بھی ایک سویپر کے لیڈی ڈاکٹر ہراساں کرنے کے معاملے پر جنوبی پنجاب کی وہی ذات برادری روش پر ہٹوا دیا گیا اور پروفیسر مبار ک کو عدالتوں کے ذریعے واپس آنا پڑا ۔ مریضوں ،ان کے لواحقین کے رویوں، مقامی سازشوں، ہسپتالوں میں سرکاری لوگوں کی مداخلتوں، ذات برادی اقربا پروری اور سول بیوکریسی کے ذریعے ذاتی رنجشوں کی آڑ میں لیے انتقاموں سے اٹا ،سہولیات کے بدترین فقدان کے سمندر میں آخری ہچکولے کھاتا صحت کا نظام۔ یہ ہے میرا جنوب ۔یہ سب آپ کا پیچھا ،آپ کے نجی کلینک اور ہسپتال تک بھی کرتا ہے اور بعض اوقات سوشل میڈیا پر اجے دیوگن بنتی جہالت آپ کو جتنا بڑا مرضی ڈاکٹر بن جائیں، گولیوں سے بھی بھون ڈالتی ہے۔ اسلام آباد کی بارشوں کے رومانس میں، ایک عنصر مایوسی کا بھی ہے۔ یہاں بھی جہالت ہے، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہے، کام نہ سکھائے جانے اور نیچا دکھانے کے رویے عام ہیں۔ مگر جنوب کی جہالت کی تاریکیاں، شاید یہاں سے زیادہ گہری ہیں، اور جب آپ نے سمندر میں تیرنا سیکھ لیا ہو تو آپ دریا میں تیر ہی لیتے ہیں۔ یہ سب جہاں آپ کو کبھی کبھار ڈبونے لگتا ہے، وہاں غریب مریض کی صحت بھی ڈوبتی ہے، لاشوں کے گرد رقص کرتی جہالت اور سیاسی رویے، یہ نظام جنوب کی شدید آنچ کی تپش ، یہاں بارشوں میں بھی رکھتا ہے اور مایوسی کے ان بادلوں میں امید کا بادل پہاڑوں کے اس پار بھی نظر نہیں آتا۔ جس قوم کی پیدائش، پرورش اور موت ،سب سیاسی ووٹوں کی بارش کے لیے کی جائے،وہاں تیز آندھیوں میں خونی بارش کے طوفانوں کے تھمنے کے بعد قوس قزح کی امید کیسی؟
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ