اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ریاست کے زیر انتظام چلنے والے پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر شاہد مسعود کی بدعنوانی کی مقدمے میں ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے ملزم کے وکیل کو کہا ہے کہ وہ پانچ لاکھ کے ضمانتی مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرائیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق شاہد مسعود کے وکیل شاہ خاور نے ضمانت کی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے ان کے موکل کے خلاف ایسے کوئی شواہد عدالت میں پیش نہیں کر سکی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کرکٹ میچز دکھانے کے نشریاتی حقوق دینے کے بارے میں خلاف قانون احکامات جاری کیے تھے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس منظور ملک نے ایف آئی اے کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا ان کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جن دو کمپنیوں کو یہ میچ دکھانے کے نشریاتی حقوق دیے تھے، ان کا ان کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہو یا انھوں نے رشوت لے کر انھیں یہ حقوق دیے ہوں۔
عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ سنہ 2015 میں جب یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا تو اس وقت عدالت میں جو پہلا چالان پیش کیا گیا تھا اس میں شاہد مسعود کو ملزم کیوں نہیں گردانا گیا جبکہ انھیں سنہ 2017 میں اس مقدمے میں ملوث کیا گیا تھا۔ تاہم ایف آئی اے کے حکام اس بارے میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ اس پر عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف آئی اے کے حکام نے اس مقدمے میں پی ٹی وی کے تین اہلکاروں پر یہ نشریاتی حقوق دینے کی ذمہ داری عائد کی تھی۔ ایف آئی اے کے بقول دو ملزمان دو کروڑ سے زائد کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ